عید سپیشل ڈرامے تو ٹی وی پہ نشرہوتے ہیں لیکن اس بار عید پہ ایک فلم نما ایکشن ٹیلی سیریز ’کنٹریکٹر‘ توجہ کا مرکز رہی۔
11 اپریل کو سیریز کی پہلی قسط ’ہر پل جیو‘ سے نشر ہوئی اور عید کے پانچ دن تجسس و دلچسپی برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ اگرچہ اس کا عید کے تہوار سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن امید کے دیے اور روشنی کی کرن ضرور تھی۔ سوچ کا ایک نیا زاویہ ضرور تھا۔
ایکشن سیریز ہونے کے باوجود اس میں وہ مار دھاڑ نہیں تھی جس کی کوئی منطق نہ ہو۔ اس میں اشرافیہ کا وہ سلجھا ہوا روپ دکھایا گیا ہے جس کے بارے میں عام انسان کے ذہین میں سوال ہی رہتا ہےکہ یہ دولت کہاں سے آ رہی ہے اور کیسےآ رہی ہے؟
دو مہذب و معزز انسان ہیں۔ راشد پروفیسر ہیں اور ان کی بیگم نگار نرس رہی ہیں۔ ان کے بیٹے صغیر کو کسی نے مار دیا تھا اور وہ دونوں اس کے قتل کا انتقام لیتے لیتے کرائے کے قاتل بن جاتے ہیں۔
وہ روپ بدل بدل کر ایک کے بعد ایک قتل کرتے ہیں اور سب قتل فطری موت کے روپ میں فائلوں میں بند ہو جاتے ہیں یوں وہ دونوں آئیڈیل کام کر رہے تھے کہ ان سے چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہونے لگیں جن سے ایک دن پولیس ان تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی۔
وہ دونوں سماج سے اپنا انتقام بھی لے رہے ہیں اور دوسروں کے مقاصد بھی پورے کر رہے ہیں لیکن کئی جگہ احساس ہوتا ہے ان کا ضمیر بھی جاگ رہا ہے۔ قتل جیسا گھناؤنا کام کرنے کے باوجود ان کی باڈی لینگوئج سے بالکل شائبہ نہیں ہوتا کہ وہ جرم بھی کر سکتے ہیں۔
ایک قتل جو ان سے حادثاتی ہو جاتا ہے اس کے احساس جرم میں اس گھر کی اکلوتی بیٹی سارہ کو کرائے دار رکھ لیتے ہیں اور بیٹی کا پیار دیتے ہیں۔ اس کو امریکہ پڑھائی کے لیے جانا ہے اور پیسوں کی ضرورت ہے تواس کا بھی انتظام کرتے ہیں کہ اچانک سارہ کی پھوپھو کو ان مہربانیوں پہ شک ہو جاتا ہے جس کا وہ اظہار کرتی ہیں تو سارا جو بہت ذہین لڑکی دکھائی گئی ہے اس کا مشاہدہ سراغ لگا لیتا ہے کہ یہی اس کے باپ کے قاتل ہیں۔
اس دوران وہ آٹھ قتل کر چکے ہوتے ہیں جن میں کوئی منشیات فروش تھا، کوئی زمینوں کا قبضہ گروپ چلا رہا تھا، کوئی جعلی ادویات بنا رہا تھا، کوئی ڈارک ویب چلا رہا تھا ، کوئی انسانی اعضا کی سمگلنگ کرتا تھا۔
بدر ایک مڈل مین کے طور پہ دونوں گروپس کے لیے معاونت کا کام کرتا تھا، وہ ایک ریٹائرڈ پولیس آفیسر ہے جو بہت کچھ کرنا چاہتا تھا مگر نظام کی خرابی کو سمجھ گیا تھا۔ اسے سمجھ آ گئی تھی کہ اس نظام کے خلاف جا کر وہ کوئی کام نہیں کر سکتا اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔
یہ بات ابھی ایس ایچ او حماد کو سمجھ نہیں آ رہی۔ وہ بدر کو اپنا آئیڈیل آفیسر سمجھتا ہے لیکن جب اس پہ حقیقت کھلتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے کہ اس کا ہیرو تو ہیرو نکلا ہی نہیں۔
وہ ابھی یہی سمجھتا ہے کہ ہیرو اور عہدہ بے بس نہیں ہو سکتے لیکن ایک کیس کی چھان بین میں اپنی تمام تر کوشیشوں کے باوجود نگاراور راشد کو گرفتار کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
یہاں سارہ پہ راز خود کھلنا شروع ہو جاتے ہیں، وہ شک میں راشد اور نگار کے پاسپورٹ کاشان کو دے دیتی ہے وہ اپنے آٹھویں ٹارگٹ کو پورا کرنے کے بعد جب بدر کے کہنے پہ ملک سے نکلنا چاہتے ہیں تو پاسپورٹ غائب ہوتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سارہ کاشان سے اپنی ہر بات شئیر کرتی ہے وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ اس کے باپ کا قاتل اور صغیر کا قاتل ایک ہی ہے اور اگر وہ مجرم ہیں بھی توان کو صفائی پیش کرنے کا حق تو دے۔
کاشان کے مطابق اگر وہ مجرم ہیں تو بھی اس کی نظر میں ہیرو ہیں سارہ کو معاف کر دینا چاہیے۔ بدر سے ملنے کے بعد سارہ کی پھوپھو کی بھی یہی رائے ہے۔
سارہ ان کو معاف کرنے کو تیار نہیں ہوتی لیکن اس کو ان سے محبت بھی ہے کہ انہوں نے اسے بیٹی کا پیار دیا ہے اسے کسک یہ ہے کہ بیٹی بنا کر وہ اسے ایک بار پھر یتیم و لاوارث کر رہے ہیں۔
اس سب صورت حال میں کاشان اس کو شادی کی پیشکش کر دیتا ہے جو ابھی تو سارہ کے لیے قبول کرنا مشکل ہے، وہ کاشان سے اختلاف رکھتی ہے، کہتی ہے کہ وہ پولیس کی مدد کرے گی۔
نگار اورراشد بھیس بدل کر ایک بار پھر گھر آ جاتے ہیں کہ سارہ سے معافی مانگ سکیں مگر سارا اپنی بے بسی ظاہر کرتی ہے لیکن کھل کر رونے کے بعد انہیں معاف کرنے کے قابل ہو جاتی ہے۔
ایک خوشگوار اختتام کے ساتھ ٹیلی فلم جس نے سانس سکھا رکھے تھے، امید کی کرن بنتی ہے۔ دولت ، عہدوں اور روشنیوں کے پیچھے چھپی دنیا کی عمدہ کہانی ہے جس میں جذباتیت اورمنطق مقابل دکھائی دیتے ہیں۔
یکم اپریل 2022 میں امریکہ سے ایک فلم THE CONTRACTER ریلیز ہوئی تھی، اس کا ایک مکالمہ تھا ’ہم کرائے کے سپاہی ہیں۔‘ اس ٹیلی فلم میں راشد اور نگار کرائے کے سپاہی یا کرائے کے قاتل ہیں جن سے معاشرے میں مصنوعی اشرافیہ جنم لیتی ہے اور ان کی تصویریں یہ نظام خود ہی بدلتا رہتا ہے۔
کہانی مضبوط ہو تو کرداروں کے عجیب و غریب نام رکھ کر دلچسپی پیدا نہیں کرنا پڑتی یہ نکتہ بھی اہم ہے۔ شمیم ہلالی، محمد احمد، ماہم شاہد، محمود اسلم، حمزہ طارق جمیل، حارث وحید سب نے سکرین کو پھیکا نہیں ہونے دیا۔
یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔