كوئٹہ كے چار دوست مل كر اپنی مدد آپ كے تحت سن 1980ء كے شہر کے حالات و طرز زندگی پر مبنی فلم سیریز بنا رہے ہیں۔
فلم انڈسٹری میں كام نہ ملنے اور محدود مواقع کی وجہ سے بلوچستان یونیورسٹی كے میڈیا سٹڈیز میں ماسٹرز كرنے كے بعد چار كلاس فیلوز نے مل كر اپنے جیب خرچ سے فلم بنانی شروع كی ہے۔
چار دوستوں میں سے ایک عبدالرب زبیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات كرتے ہوئے بتایا كہ ان كی اس سیریز كی كہانی كوئٹہ كے مشہور مصنف آغا گل كے ناول ’بابو‘ سے لی گئی ہے جس میں 1980 كا زمانہ اور اس وقت كوئٹہ میں آباد پشتون، بلوچ سیٹلرز، ہزارہ اور اردو بولنے والے دوستوں كی گرد گھومتی ہے۔
’فلم میں بھائی چارہ مختلف زبانوں اور ثقافتوں سے تعلق ركھنے والے افراد كا رہن سہن اور كوئٹہ میں بولی جانی والی اردو زبان کی مخصوص بول چال پر زور دیا گیا ہے جس میں اردو كے جملوں میں دوسرے مقامی زبانوں كے مخصوص الفاظ شامل كركے ایک دوسرے سے كمیونیكیٹ كیا جاتا تھا۔‘
بجٹ كم ہونے كے سبب فلم بنانے والے یہ چار دوست سكرپٹ، سٹوری بورڈ، كاسٹ، لوكیشنز، ریكارڈنگ اور پوسٹ پروڈكشن تک ہر چیز خود ہی كررہے ہیں اور فلم میں كام كرنے والے ایكٹرز بھی بلا معاوضہ رضاكارانہ طور پر ایکٹنگ کررہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عبدالرب زبیر نے بتایا کہ ’ہمارے پاس سكیلز (صلاحیت) تھیں، ٹیلنٹ تھا لیكن وسائل نہیں تھے پھر دوستوں نے پلان كیا كہ ہم مل كر اپنی جیب خرچ سے جس طرح بھی ہو، بیشک كم بجٹ میں ہم ایک بہترین پروڈكشن كا پلان كرتے ہیں۔‘
اگرچہ كوئٹہ میں پہلے كے نسبت اب عمارتیں اور تعمیرات كا زیادہ انفراسٹركچر تبدیل نہیں ہوا تاہم 45 سالہ پرانہ ماحول دكھانا ایک مشكل ہدف ہے اس مسئلے كے حل كے لیے فلم بنانے والے یہ دوست ان ہوٹلز اور جگہوں كا انتخاب كررہے جن کا طرزِ تعمیر پرانا ہو۔
عبدالرب زبیر نے انڈیپینڈنٹ اردو كو بتایا كہ ان كو اس وقت سب سے زیادہ مشكل لوکیشن ڈھونڈنے اور وہاں پر بغیر معاوضہ ادا کیے شوٹنگ كی اجازت لینے میں پیش آرہی ہے۔
ان سارے مسائل ہونے كے باوجود زبیر اور ان كی ٹیم مسلسل شوٹنگ كررہے ہیں اور آنے والے وقت میں وہ ایک بہترین اور بین الاقوامی لیول پر مقابلہ كرنے والی فلم بنانے كے لیے پر اُمید ہیں۔