اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتہ شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع کو منگل کو طلب کرتے ہوئے تفتیشی افسر کو سیکٹر کمانڈر کا بیان لے کر منگل کو پیش کرنے کی ہدایت کی۔
لاپتہ شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر پیر کو ہونے والی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ’ایجنسیاں یہ ملک چلائیں گی یا قانون کے مطابق ملک چلے گا؟‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’سیکٹر کمانڈر چاند پر رہتا ہے؟ کیا حیثیت ہے اس کی؟ ایک گریڈ 18 کا ملازم ہو گا۔ ان کو ان کی اوقات میں رہنے دیں۔ مت ان کے تابع ہوں۔ ملک ان کے بغیر بھی چلے گا۔‘
سماعت کے دوران نمائندہ وزارت دفاع نے عدالت کو بتایا کہ مغوی آئی ایس آئی کے پاس نہیں ہے، آئی ایس آئی پر الزام ہے مگر وہ اس الزام کی تردید کر رہے ہیں۔‘
اس پر جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا: ’اب معاملہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے دائرہ اختیار سے باہر نکل گیا ہے۔ وہ اپنی ناکامی بتا رہے ہیں۔ سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع عدالت میں پیش ہوں اور آخرالزکر تحریری رپورٹ پیش کریں۔ میں جب فیصلہ دوں گا تو یہ معاملہ اغوا سے کہیں اور نکل جائے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ اور آسان نہیں ہے۔ ’اس کیس میں ایک مثال قائم ہونا ہے، ایک طرف میسجز بھیج رہے ہیں اور پھر کہہ رہے ہیں کہ بندہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ دونوں سیکریٹریز ابھی پیش ہوں گے۔ اس کے بعد وزیر اعظم کو طلب کروں گا۔ بعد میں وفاقی کابینہ کے ارکان بھی عدالت آئیں گے۔ اب مغوی کی بیوی سے اس کی بات نہ کرائیں۔ کوئی ایک تو جھوٹ بول رہا ہے۔ مگر تاریخ بالکل واضح ہے کہ ہے کیا؟ اغوا ہونے والے شہری کو قانون نافذ کرنے والے ادارے بازیاب نہیں کرا سکے۔‘
دوسری طرف وفاقی وزیر قانون اعظم نذید تارڑ نے لاپتہ شاہر احمد فرہاد کے مقدمے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ریمارکس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کو عدالتی نظام کے اندر رہ کر فرائض سرانجام دینا چاہیے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین میں تمام اداروں بشمول عدلیہ کے فرائض اور ذمہ داریوں کا واضح طور پر ذکر ہے اور سب کو اس کے مطابق کام کرنا ہو گا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ عدالت کی طرف سے وفاقی کابینہ اور وزیر اعظم یا کسی ادارے کے متعلق ریمارکس غیر مناسب ہیں، جن پر انہیں افسوس ہوا۔
وقفے سے قبل کی سماعت کا احوال
جسٹس محسن اختر کیانی نے عروج زینب کی اپنے مغوی شوہر احمد فرہاد کی بازیابی درخواست پر سماعت کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عدالت نے دریافت کیا: ’ایک متفرق درخواست آئی ہے اس میں کیا ہے؟‘ وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’17 مئی جمعے کی رات کو پٹیشنر کو شوہر کے وٹس ایپ نمبر سے کال آتی ہے۔ ان کے پیچھے سے دو مزید افراد کی آوازیں آ رہی تھیں، جو دباؤ ڈال رہے تھے۔ کہا گیا کہ پٹیشن واپس لیں تو بندہ ہفتے کے روز واپس آ جائے گا لیکن کورٹ کو جھوٹ بولنا ہے کہ احمد فرہاد کو اغوا نہیں کیا گیا بلکہ وہ اپنی مرضی سے گئے تھے۔ بارہا رابطے کیے جا رہے ہیں اور بہت زیادہ پریشر ڈالا جا رہا ہے۔ تین ڈرافٹس ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان شیئر ہوئے۔ احمد فرہاد واپس نہیں آئے اس لیے ہم درخواست واپس نہیں لے رہے۔ اگر یہ اغوا برائے تاوان ہوتا تو وہ پیسے مانگتے۔ یہ واضح طور پر جبری گمشدگی کا کیس ہے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے ’ایک آدمی کو اغوا کر کے رکھا ہوا ہے۔ اپنے اوپر سے اغوا کا لیبل ہٹوائیں۔ مجھے اب آئی ایس آئی سے بندہ چاہیے۔ سیکریٹری دفاع ذاتی حیثیت میں پیش ہوں۔ میں وارنٹ گرفتاری جاری کروں گا۔ تفتیشی افسر آج ہی ڈی جی آئی ایس آئی اور سیکٹر کمانڈ کا بیان لکھیں۔ احمد فرہاد دہشت گرد ہے؟ کیا بھارت سے آیا ہے یا اغوا برائے تاوان میں ملوث ہے۔‘
ایس ایس پی آپریشنز نے عدالت کے سامنے کہا: ’نہیں، سر ایسا نہیں ہے۔‘ اس پر عدالت نے کہا ’آج ہی 11 بجے جواب جمع کرائیں۔‘ جس پر وزارت دفاع کے نمائندے نے دو دن کا وقت طلب کیا تو جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ’اتنا وقت کیوں چاہیے؟ آپ نے کیا پوچھنا ہے کہ باجوڑ والے سیف ہاؤس میں ہے یا کشمیر والے؟‘
عدالت نے ان سے استفسار کیا ’کیا آپ کبھی اغوا ہوئے ہیں؟‘ وزارت دفاع کے نمائندے نے جواب دیا ’نہیں،‘ جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا ’جو اغوا ہوئے ان پر کیا گزرتی ہے، ان کو ہی پتہ ہوتا ہے۔ آپ کے پاس 11 بجے تک کا وقت ہے۔‘
وزارت دفاع کے افسر نے اس موقع پر کہا کہ رابطہ کرنے کے لیے وقت چاہیے، جس پر عدالت نے کہا کہ ’کیا ان کے دفاتر چاند پر ہیں، جو رابطے میں وقت لگے گا۔ لوگوں کو اس نہج پر نا لے کر آئیں کہ اداروں کا جینا مشکل ہو جائے۔ میں اس کیس کو ڈی بی کے بعد تین بجے دوبارہ سنوں گا۔ تین بجے تک جواب لائیں، ورنہ آرڈر پاس کروں گا۔‘
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن نے کہا ’پورے ادارے پر الزام عائد نہیں ہو سکتا۔‘
عدالت نے کہا ’پھر بتائیں کہ کیا کوئی ان کا ترجمان ہے جس کا نام لیں؟ آپ لوگوں نے اپنے ادارے سے متعلق رائے تبدیل کرنا ہے۔ سٹیٹ کا فرنٹ فیس نامعلوم افراد نہیں پولیس ہے۔‘
ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ ’ایف آئی آر درج ہونے پر یہ حبس بے جا میں رکھنے کا نہیں بلکہ اغوا کا کیس ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پولیس تفتیش کر رہی ہے۔ شہناز بی بی کیس میں عدالت یہ اصول طے کر چکی ہے کہ عدالت تفتیش میں مداخلت نہیں کرے گی۔ اس حوالے سے بھی عدالت کی مزید معاونت کی جائے گی۔‘