پنجاب اسمبلی میں جہیز کے خلاف قانون بنانے پر اتفاق

صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر اینڈ بیت المال سہیل شوکت بٹ نے جہیز پر پابندی کے حوالے سے قانون سازی اور شادیوں میں ون ڈش کی پابندی پر جلد عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی۔

سات جنوری 2024 کی اس تصویر میں کراچی میں ایک ہندو دلہن اجتماعی شادی کی تقریب کے دوران (اے ایف پی/علی حسان)

پنجاب اسمبلی میں جہیز کے خلاف قانون بنانے کا معاملہ حال ہی میں اٹھایا گیا جس کے حوالے سے قانون سازوں کا موقف ہے کہ اگر انڈیا میں اس طرز کا قانون موجود ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں بنایا جاسکتا۔

یہ مسئلہ دوبارہ زیر بحث اس لیے آیا کہ پنجاب اسمبلی میں رواں سیشن کے دوران ایوان میں حکومتی رکن اسمبلی احسن رضا خان نے انکشاف کیا کہ ’پاکستان میں اب تک ایک کروڑ 35 لاکھ لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے شادیوں سے محروم ہیں۔ انڈیا نے جہیز لینے اور دینے کا عمل جرم قرار دینے کا قانون پاس کر لیا ہے۔

تو ہمارے ہاں ایسا قانون کیوں نہیں بن سکتا؟‘

اس معاملے پر ایوان میں موجود حکومتی اور اپوزیشن کے اراکین نے مکمل حمایت کی اور عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔

صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر اینڈ بیت المال سہیل شوکت بٹ نے جہیز پر پابندی کے حوالے سے قانون سازی اور شادیوں میں ون ڈش کی پابندی پر جلد عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی۔

لیکن یہاں پھر وہی سوالات کھڑے ہوگئے کہ کیا جہیز پر مکمل پابندی ممکن ہے؟ ون ڈش کی پابندی پر عمل درآمد کرایا جا سکے گا؟

وزارت سوشل ویلفیئر نے وزارت قانون کے ساتھ مل کر اس حوالے سے قانون سازی کو ضروری قرار دیا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ قبلہ ایاز کے مطابق: ’جہیز پر پابندی کے ساتھ خواتین کو جائیداد سے ان کا شرعی حق ملنے کو بھی یقینی بنانے کی ضرروت ہے۔ لیکن یہ معاشرے میں لوگوں کو یقینی بنانے کے لیے خود کردار ادا کرنا ہوگا۔‘

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’وائس‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بشری خالق نے کہا کہ ’جہیز ایک لعنت ہے اس کی جتنی حوصلہ شکنی کی جائے کم ہے۔ لیکن اس کے بغیر خواتین کو زندگی میں سسرال سے پوری زندگی طعنے برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ جائیداد سے شرعی حصہ لینے پر قریبی رشتوں کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

جہیز پر پابندی اور ون ڈش کی پابندی پر مجوزہ قانون سازی

صوبائی وزیر سوشل ویلفیئر و بیت المال سہیل شوکت بٹ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جہیز کی فرسودہ رسم معاشرے میں ایک ناسور کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے 13 ملین (ایک کروڑ تین لاکھ) سے زائد بچیاں صرف جہیز نہ ہونے کی وجہ سے شادی سے محروم زندگی گزار رہی ہیں۔

’ہم کہتے تو رہتے ہیں کہ جہیز ایک لعنت ہے، مگر اس کے خلاف ٹھوس اقدامات اور قانون سازی کی ہی نہیں گئی اور اگر کوئی قانون موجود ہے بھی تو اس پر عملدرآمد کی کمی دیکھنے میں آتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جہیز درحقیقت وہ لعنت ہے جو گھریلو تشدد کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ اول تو جہیز نہ دینے کی وجہ سے بچیوں کی شادیاں ہی نہیں ہوتیں، اور اگر شادی ہو بھی جائے تو گھریلو تشدد کا شکار رہتی ہیں۔‘

سہیل شوکت کے بقول، ’وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کی قیادت میں اس ناسور کے خلاف اب ٹھوس اور انقلابی قدم اٹھانے کا وقت آگیا ہے۔ میں بطور عوامی نمائندہ اور وزیر سوشل ویلفیئر و بیت المال اپنی یہ ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ صوبائی سطح پر اس دور جاہلیت کی رسم کے خلاف آواز اٹھاؤں اور اس کے لیے سخت قانون سازی میں اپنا عملی کردار ادا کروں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم وزارت قانون کے ساتھ مل کر ایسا قانون بنوانے کی کوشش کریں گے جس کے ذریعے اس لعنت سے ہماری بچیاں اور ان کے بےبس والدین محفوظ رہیں۔ اور کوئی ان بچیوں کو جہیز نہ لانے کی پاداش میں گھریلو تشدد کا نشانہ نہ بنا سکے۔‘

قبلہ ایاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ جہیز کی ہماری شرع میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ جہیز دینے کی رسم کیونکہ قدیمی چلی آرہی ہے اس لیے یہ رائج الوقت ہوچکی ہے۔ اس میں بچیوں کے والدین کے لیے سب سے بڑا بوجھ یہ ہوتا ہے کہ وہ عمر بھر جہیز کے لیے پیسے جمع کرتے رہتے ہیں۔ بچیوں کے رشتے بھی جہیز کے حساب سے ہوتے ہیں۔

ان کے بقول: ’اس کی سب سے بڑی وجہ معاشرتی رویے ہیں جب صاحب حیثیت اپنی بچیوں کو زیادہ جہیز دیتے ہیں تو ان کی بچیوں کے لیے رشتوں کی کمی نہیں ہوتی۔ لیکن غریب کی بچی سے شادی اس لیے مشکل ہوتی ہے کہ اس کے والدین جہیز یا دولت دینے کے قابل نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہیز کے بغیر جن ہزاروں بچیوں کی بروقت شادی نہیں ہوتی ان کی اکثریت غریب گھرانوں سے ہوتی ہے۔‘

قبلہ ایاز کے مطابق ’جب تک جہیز دینے اور لینے والوں کے رویے تبدیل نہیں ہوں گے اور اسے معاشرتی برائی تصورنہیں کیا جائے گا معاملہ حل نہیں ہوگا۔ اگرچہ حکومت قانون سازی کرنا چاہتی ہے لیکن عمل درآمد سب سے اہم پہلو ہے۔ اسی طرح جائیداد سے حصہ قانونی حق ہونے کے باوجود کئی خواتین کو نہیں دیا جاتا حالانکہ یہ قانون بھی موجود ہے۔‘

معاشرتی چیلنجز

حکومتی رکن احسن رضا خان نے کہا کہ شہبازشریف نے بطور وزیر اعلی پنجاب ون ڈش پابندی لگائی جس سے غریب بچیوں کی شادیاں ہوئیں۔

ان کے بقول شہباز شریف نے اس پابندی پر سختی سے عمل درآمد بھی کرایا۔
’اسی طرح جہیز اور نمائش پر پر پابندی لگنی چاہیے۔ وراثت کا قانون موجود ہے بیٹی کا حصہ وراثت سے ملتا ہے یہ جہیز میں گاڑیوں کے چکر سےغریب خود کشی پر مجبور ہے۔

’80 فیصد طبقہ مزدور ہے، 32 ہزار روپے مزدوری لیتا ہے یہ شخص بچی کو سکول  میں داخل کروائے گا یا جہیز اکٹھا کرے گا؟‘

ایگزیکٹو ڈائریکٹر وائس بشری خالق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے پاس ایسے بے شمار کیس آتے ہیں کہ بچی کی شادی طے تھی لیکن جہیز کی شرط پوری نہ ہونے پر رشتہ ٹوٹ گیا۔ اس لیے جہیز جیسی لعنت کو معاشرے سے ختم کرنے کے لیے قانون سازی کے ساتھ آگاہی مہم بھی ضروری ہے۔ جو جہیز مانگے اس کے خلاف سخت ایکشن ہونا چاہیے۔

’مگر یہ معاملہ انتہائی حساس ہے بیٹی کا گھر بسانے کے لیے والدین ہر جائز ناجائز مطالبہ خاموشی سے پورا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔‘

بشریٰ کے بقول، ’ایسے مسائل کا حل معاشرتی شعور ہوتا ہے اس لیے بچیوں کو جہیز کی بجائے تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے پر یہ مسئلہ کافی حد تک حل ہوجاتا ہے۔ ہم نے مہم چلائی ہے کہ بچیوں کا رشتہ دولت نہیں بلکہ باکردار شخص سے کیا جائے۔ کیونکہ والدین کی اکثریت ایسی ہے جو اپنی بیٹیوں کے لیے دولت مند گھرانوں کا انتخاب کرتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’ہمارے معاشرے میں کم جہیز لانے والی بہو کے مقابلے میں زیادہ لانے والی بہو زیادہ اہم ہوتی ہے۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ کئی گھرانوں میں اب یہ جہیز لینے یا دینے کی روایت دم توڑ رہی البتہ ان کی تعداد کم ہے مگر یہ سلسلہ شروع ضرور ہوچکا ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان