ملک کی سابق حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اس کی مرکزی قیادت نو مئی کے بعد سے جیلوں میں بند ہے۔ کئی رہنما اور کارکنان مقدمات کا سامنا بھی کر رہے ہیں، ایسے حالات میں پارٹی صدر چوہدری پرویز الہی کی کئی ماہ بعد رہائی سے کارکن پر امید دکھائی دیتے ہیں۔
کیونکہ وہ پارٹی کے مرکزی عہدیدار ہونے کے باوجود پریس کانفرنس کی بجائے پابند سلاسل رہنے کے بعد رہا ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی رہنما اور عہدیداروں کو بھی حوصلہ ملا ہے۔
پی ٹی آئی کے سیکریٹری اطلاعات پنجاب شوکت بسرا کے بقول، چوہدری پرویز الٰہی نو ماہ سے گرفتار تھے لیکن انہوں نے پارٹی قیادت سے وفا داری نبھائی۔
شوکت بسرا نے کہا کہ ’ان کی رہائی سے ثابت ہوا ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان سمیت دیگر رہنماؤں کو بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جس طرح عدالت نے ان کی رہائی کا حکم سنایا اسی طرح دیگر قائدین بھی جلد رہا ہوں گے۔‘
تجزیہ کار وجاہت مسعود کے مطابق، ’چوہدری پرویز الٰہی نے ہمیشہ طاقتور حلقوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی بنیاد پر سیاسی کردار ادا کیا۔ بے شک وہ پنجاب کی سیاست میں اہمیت رکھتے ہیں۔ لیکن انہیں اسمبلیاں تحلیل کرنے کی سزا دینا مقصود تھا وہ انہیں مل گئی۔
’اب وہ مقامی طور پر تو سیاست کرتے رہیں گے لیکن قومی سطح پر پی ٹی آئی کی فیصلہ سازی یا اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر کرنے میں وہ نمایاں کردار ادا نہیں کر پائیں گے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کسی کو پارٹی کا کنٹرول دینے کو تیار نہیں ہوں گے۔‘
دوسری جانب تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق، ’چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے دو بار وزیر اعلی رہے ہیں ملکی اداروں میں ان کا کافی اثر ورسوخ ہے۔ جس طرح عمران خان نے عارف علوی کو بات چیت کے دروازے کھولنے کی ذمہ داری دی اس کے لیے پرویز الہی بہترین انتخاب ہوسکتے ہیں۔‘
پرویز الہی کی رہائی کسی ڈیل کا نتیجہ ہے؟
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سلطان تنویر نے چوہدری پرویز الہی کی پنجاب اسمبلی بھرتیوں کے کیس میں گذشتہ روز منگل کو محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے درخواست ضمانت منظور کر کے رہائی کا حکم دیا جس کے بعد انہیں کوٹ لکھپت سے رہا کر دیا گیا۔
دوسری جانب اسی وقت آئی جی پنجاب نے جسٹس امجد رفیق کی عدالت میں پرویز الہٰی کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات جمع کرا دیں تھیں کہ پنجاب پولیس نے نو مئی کے 20 مقدمات میں پرویز الہٰی کو نامزد کر دیا ہے۔
انہیں لاہور میں تین، فیصل آباد میں چار اور راولپنڈی میں 11 مقدمات میں نامزد کیا گیا، پرویز الہٰی کو ضلع اٹک اورضلع گوجرانوالا کے ایک ایک کیس میں بھی نامزد کیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جس کے بعد گمان یہی کیا جارہا تھا کہ پہلے کی طرح اس بار بھی ان کی ضمانت منظور ہونے کے باوجود کسی اور مقدمے میں گرفتاری سے جیل میں ہی رکھا جائے گا۔
اس سے قبل بھی ان کی متعدد بار ضمانت منظور ہوئی مگر انہیں کسی نئے مقدمے میں نامزد کر کے گرفتار کیا گیا۔
شوکت بسرا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پرویز الہی کو عدالت کے حکم پر رہا کیا گیا ہے کسی ڈیل کے نتیجے میں رہا کیا جاتا تو وہ پی ٹی آئی قیادت کے خلاف پریس کانفرنس کرتے۔ دوسری بات یہ کہ انہوں نے رہائی کے بعد بیان دیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ کھڑے تھے، کھڑے ہیں اور کھڑے رہیں گے۔
’جو عمران خان کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان کرے اس کے ساتھ ڈیل کون کرے گا؟‘
وجاہت مسعود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’چوہدری پرویز الہی سے ڈیل کا کسی کو کیا فائدہ کیونکہ عمران خان جب تک جیل میں ہیں تو ڈیل ہونا مشکل ہے۔ پھر چوہدری پرویز الہی کا سیاسی قد کاٹھ اپنے خاندان کے ساتھ وابستہ ہے لہذا جب تک وہ چوہدری شجاعت فیملی سے صلح نہیں کریں گے ان کی سیاسی ساکھ پہلے کی طرح بحال نہیں ہوگی۔‘
تجزیہ کار کے مطابق ’پرویز الہی اب صرف اپنے قریبی لوگوں تک محدود رہیں گے قومی سطح پر تحریک انصاف کے لیے زیادہ فائدہ مند نہیں۔ کیونکہ پہلے ہی پارٹی چلانے والے رہنما موجود ہیں وہ اور عمران خان پرویز الہی پر اتنا اعتماد نہیں کریں گے کہ پارٹی ان کے ہاتھ میں چلی جائے۔‘
پارٹی صدر کی رہائی سے پی ٹی آئی کو سیاسی فائدہ؟
تجزیہ کار سلمان غنی کے بقول، ’اس میں کوئی شک نہیں کہ چوہدری پرویز الہی نہ صرف سینیئر سیاستدان ہیں بلکہ اداروں کے مزاج کے مطابق سیاست کو سمجھتے ہیں۔
عمران خان نے جس طرح سابق صدر عارف علوی کو ہدایت دی کہ وہ تحریک انصاف کی مخالف قوتوں کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھولیں۔ اس کام کے لیے بھی پرویز الہی سب سے موزوں رہنما ہیں۔ وہ اپنے سیاسی فیصلوں اور مشاورت سے کوئی راستہ نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘
تجزیہ کار سلمان غنی نے کہا کہ’جہاں تک بات ان کے پارٹی میں اہمیت حاصل کرنے کی ہے تو وہ ہر سیاست دان اپنی جگہ خود بناتا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی قیادت پہلے بھی پرویز الہی کے مشورے مان کر اسمبلیاں تحلیل کرنے اور نو مئی جیسے واقعات سے باز رہتی تو حالات بہتر ہوسکتے تھے۔‘
سلمان غنی کے مطابق، ’پی ٹی آئی کے بانی موجودہ پارٹی عہدیداروں کی کارکردگی سے زیادہ مطمئن دکھائی نہیں دیتے اس لیے انہیں پروہز الہی جیسے تجربہ کار سیاسی رہنما کے ذریعے پارٹی کو دوبارہ مستحکم اور مزید متحرک کرنے میں شاید اعتراض نہیں ہوگا۔‘
شوکت بسرا نے کہا کہ ’جس طرح پرویز الہی نے مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تو ان کا کردار پارٹی قیادت اور کارکنوں میں مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ وہ پارٹی کے صدر بھی ہیں ہم ان کی صلاحیتوں سے بھر پور فائدہ اٹھائیں گے۔ جلد ہی ان کی عمران خان سے جیل میں ملاقات متوقع ہے۔‘
شوکت بسرا کے بقول:’ان کا سیاسی اور طاقتور حلقوں میں کافی اثر ورسوخ بھی ہے اور ان کو حالات کے مطابق فیصلوں کا ادراک بھی ہے۔ اس لیے ان کے رہا ہونے سے پارٹی کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔‘
انہوں نے دعوی کیا کہ ’چوہدری پرویز الہی کی رہائی کے بعد ہم پہلے پنجاب میں دھاندلی کے خلاف جلسے جلوسوں کا سلسلہ شروع کریں گے۔ اپنا احتجاج کا حق استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔ ہم بات چیت ضرور کریں گے لیکن دھاندلی کا تدارک اور شفاف انتخابات کے انعقاد کا طریقہ طے کیے بغیر آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔‘