ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کی ایک بار کی چیمپیئن ٹیم پاکستان نے بالآخر اپنے سکواڈ کا اعلان کر دیا ہے۔
یہ اعلان انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی جانب سے مقررہ آخری تاریخ گزرنے سے ایک گھنٹے پہلے کیا گیا۔ 25 مئی آئی سی سی کی آخری تاریخ تھی۔
آخری گھنٹوں میں ٹیم کا اعلان اس لیے سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہی کھلاڑی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں جو گذشتہ ایک ماہ سے ٹیم کے ساتھ ہیں اور میڈیا سے لے کر کرکٹ کے شائقین تک کو علم تھا کہ ٹیم کیا ہوگی۔
اگرچہ آخری وقت تک ایک تجسس اور سنسنی خیزی کی مصنوعی کیفیت پیدا کرنے کے باوجود پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) اس سکواڈ کے اعلان سے کسی کو حیران نہ کر سکا۔
ٹیم کا اعلان آخری گھنٹوں میں کیوں ہوا؟
سلکیٹرز کی بہتات کے ساتھ بنی ہوئی سلیکشن کمیٹی نے کھلاڑیوں کی کارکردگی کا بہت قریب سے جائزہ لینے کے لیے ایک سلیکٹر کو ٹیم کے ساتھ سینیئر مینیجر بنا کر روانہ کردیا حالاں کہ وہ نہ عمر میں سینیئر ہیں اور نہ تجربے میں۔
لیکن ان پر جن صاحبانِ اختیار کا ہاتھ ہے، ان کے آشیرباد سے موصوف نے سلیکشن کو مذاق بنا دیا ہے۔
ایک کھلاڑی جو آئرلینڈ اور انگلینڈ کے دوروں میں شامل نہیں تھا، اسے یہ کہہ کر اچانک شامل کیا کہ انگلینڈ کا تجربہ ہے اور حارث رؤف کے زخمی ہونے کے باعث ان کی ضرورت ہے۔ اب انہیں کوئی میچ کھلائے بغیر فارغ کر دیا گیا ہے۔
تین سلیکٹرز نے اعظم خان اور صائم ایوب کو شامل کرنے کی مخالفت کی مگر سینیئر چیئرمین صاحب نے مداخلت کی اور حتمی فہرست کو مسترد کردیا۔
اعظم خان آخری وقت میں سلمان آغا کی جگہ شامل ہوگئے جبکہ صائم ایوب نے عرفان نیازی کا راستہ روک دیا۔ دونوں کے لیے بہت اوپر سے دباؤ تھا۔
دوسری طرف شاداب خان کی جگہ اسامہ میر کی شمولیت بھی زیر بحث رہی۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک سلیکٹر شاداب خان پر بالکل متفق نہیں تھے، حارث رؤف بھی فٹ نہیں ہیں لیکن بابر اعظم کی مداخلت پر شامل کیے گئے۔
پاکستان ٹیم نے صرف سلمان علی آغا اور عرفان نیازی کو فارغ کرکے وہی ٹیم رکھی ہے جو فی الحال انگلینڈ کے دورے پر ہے۔
لیکن شنید یہ ہے کہ چیئرمین پی سی بی سلیکشن کمیٹی سے خوش نہیں ہیں حالاں کہ ٹیم تو صرف وہاب ریاض، اظہر محمود اور محمد یوسف نے منتخب کی ہے۔
کیا ٹیم کچھ کرسکے گی؟
پاکستان جس کا ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں منفرد اور حیران کن ریکارڈ ہے، آغاز میں مایوس کن کارکردگی دکھاتی رہی ہے لیکن آخری لمحات میں چھا جاتی ہے۔
گذشتہ ورلڈ کپ اس کی مثال ہے جب شکستوں سے آغاز کرنے والی ٹیم فائنل تک پہنچ گئی تاہم اس میں پاکستان کی بہتر کارکردگی سے زیادہ دوسروں کی بدترین کارکردگی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
زیر تذکرہ ورلڈکپ ایک مختلف نوعیت کا ٹورنامنٹ ہے۔ اس کے ابتدائی میچز امریکہ میں کھیلے جائیں گے جو عالمی کرکٹ کے لیے ایک نیا تجربہ ہوگا۔
زیادہ تر میچ تو ویسٹ انڈیز میں ہوں گے لیکن پاکستان کو اپنی پہلی جنگ امریکہ کے میدانوں سے شروع کرنی ہے۔
پہلا میچ تو امریکہ سے ہے جس کی حیثیت کراچی کے کسی کلب سے زیادہ نہیں لیکن گذشتہ دنوں اس نے بنگلہ دیش کو دو ٹی ٹوئنٹی میچز میں شکست دے کر پاکستان کو چونکا دیا ہے۔
پاکستان کا دوسرا میچ، جو اس ورلڈکپ کا سب سے مہنگا اور منافع بخش میچ ہوگا، انڈیا کے ساتھ ہے جس پر سب کی نظریں لگی ہیں لیکن پاکستان کا ایک اور اہم میچ آئرلینڈ کے ساتھ فلوریڈا میں ہوگا۔
پاکستان اگر انڈیا سے ہار بھی جاتا ہے تو فلوریڈا سے ہر صورت میں جیتنا ہوگا۔
شاید پاکستانی ٹیم کی انتظامیہ بھی ماضی کے پیش نظر انڈیا سے زیادہ دوسری ٹیموں کے ساتھ مقابلوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔
توقع تو یہی ہے کہ پاکستان بنا کسی اگر مگر کے سپر ایٹ مرحلے میں پہنچ جائے گا، جہاں دیگر بڑی ٹیمیں اس کے سامنے ہوں گی۔
سپر ایٹ کے سارے میچ ویسٹ انڈیز میں ہوں گے جہاں کی پچز اور میدان نئے نہیں ہیں۔ پاکستان کے زیادہ تر کھلاڑی ان سے آشنا ہیں۔ کیریبئن لیگ کا تجربہ ان سب کے کام آئے گا لیکن ورلڈکپ کے مقابلوں کا معیار لیگ سے بہت زیادہ اوپر ہوتا ہے۔
کون کون شامل ہے؟
پاکستان ٹیم میں گذشتہ ایک سال سے اوپنرز کی بہتات بھی ہے اور مسئلہ بھی اوپنرز ہی ہیں۔ بابر اعظم کی اوپننگ پر بے حد تنقید کے بعد آئر لینڈ کے خلاف سیریز میں صائم ایوب اور محمد رضوان نے اوپننگ کی تھی اور بابر ون ڈاؤن کھیلے تھے۔
اگرچہ صائم ایوب تین میچ کھیل کر کوئی بڑا سکور نہیں کرسکے لیکن انہوں نے عثمان خان کے لیے جگہ خالی نہیں کی۔
شاید انگلینڈ کی سیریز میں یہ تجربہ مزید کیا جائے گا۔ لیڈز کا میچ واش آؤٹ ہونے کے بعد برمنگھم کا میچ بہت اہم ہوگا۔
اگر صائم ایوب ناکام رہے تو شاید اگلے دو میچوں میں عثمان خان کو موقع مل سکے یا پھر بابر اعظم ایک بار پھر اوپنر بن جائیں۔
فخر زمان جو قدرتی اوپنر ہیں وہ اس مثلث کا سب سے زیادہ شکار ہو رہے ہیں۔ انہیں اب چوتھے نمبر پر کھیلنا پڑ رہا ہے۔
وہ جب بیٹنگ کرنے آتے ہیں تو اس وقت سپنرز بولنگ کر رہے ہوتے ہیں، جس کے سبب وہ زیادہ کارگر نہیں رہتے۔
مناسب ہوگا اگر وہ اوپننگ کریں۔ افتخار احمد اور اعظم خان اب مڈل آرڈر میں ہوں گے لیکن دونوں مڈل آرڈر کا کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں۔
مختصر سی اننگزکے باعث ٹیم بڑا سکور نہیں کرپاتی ہے۔ اگرچہ امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں گراؤنڈ بہت بڑے نہیں ہوں گے اس لیے شاید دونوں کو موقع مل جائے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی ٹیم اپنے رنز بنانے کی رفتار مناسب نہیں رکھ پاتی۔
عماد وسیم اور شاداب خان سے زیادہ امید رکھنا عبث ہوگا۔ بولنگ میں شاہین شاہ آفریدی روایتی بولنگ کر رہے ہیں لیکن نسیم شاہ اور عباس آفریدی کی فارم قابل تشویش ہے۔
دونوں آئرلینڈ کے خلاف بہت مہنگے ثابت ہوئے۔ ویسٹ انڈیز میں شاید عماد وسیم بولنگ کا آغاز کریں۔ محمد عامر کی فارم بھی تنزلی کا شکار ہے۔
کس پر سب سے زیادہ ذمہ داری ہوگی؟
پاکستانی ٹیم کی انتظامیہ نے جس طرح ٹیم کا ڈھانچہ بنایا ہے اس سے محمد رضوان اور بابر اعظم ہی اینکر رول ادا کریں گے۔
اگر فخر زمان کی فارم کو بہتر استعمال کیا جائے تو نتیجہ بہت مختلف ہوگا۔ فخر زمان نے آئر لینڈ میں اچھی بیٹنگ کی تھی، ویسٹ انڈیزکی پچوں پر بہت سنبھل کر کھیلنا پڑتا ہے کیوں کہ باؤنس کم ہوتا ہے۔
اگر بابر اعظم اور شاہین شاہ آفریدی نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا تو پاکستان یقینی طور پر آخری مرحلے تک پہنچ جائے گا۔
پاکستانی ٹیم جو آج برمنگھم میں موجودہ چیمپیئن انگلینڈ کے خلاف میچ کھیل رہی ہے۔ اس کے لیے اچھا موقع ہے کہ اپنی حکمت عملی تبدیل کرے اور ایک طوفانی انداز اپنائے۔
سابق آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ کے بقول جب تک آپ آؤٹ ہونے کا خوف دل سے نہیں نکالیں گے آپ بڑی اننگز نہیں کھیل سکتے۔
پاکستان ٹیم اب تک محتاط اور دفاعی انداز اپناتی آئی ہے لیکن اس سیریز کو لمحہ تبدیلی بنا کر اپنا نیا انداز اپنالے۔
اگر ایسا ہوا تو ورلڈکپ سے پہلے ہی پاکستان مخالفین کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
جنوبی افریقہ کے گیری کرسٹن ایک ماہر بلے باز تھے اور بطور کوچ انڈیا کو ورلڈکپ جتانے میں ان کا اہم کردار تھا لیکن کرسٹن کبھی بھی جارحانہ بلے باز نہیں تھے۔
کیا ان کی کوچنگ سے پاکستان ٹیم میں تبدیلی آتی ہے یا وہی روایتی اندازرہتا ہے، اس کا اندازہ کچھ روز میں ہوجائے گا۔