آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 کا فائنل کھیلنے والی ٹیمیں پاکستان اور انگلینڈ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2024 سے قبل بدھ کو لیڈز میں آمنے سامنے ہونے والی ہیں جو یقیناً ان دونوں ہی کے لیے عالمی کپ کی تیاری کا آغاز ہوگا۔
پاکستان ان دنوں آئرلینڈ کے خلاف سیریز کھیلنے کے بعد انگلینڈ کا مقابلے کرنے کے لیے انہی کے دیس میں موجود ہے جہاں وہ انگلش ٹیم کے خلاف چار ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گا۔
نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز برابر کرنے کے بعد ہی کپتان بابر اعظم نے کہہ دیا تھا کہ ’اب تجربات کرنے کا وقت ختم ہو گیا ہے۔‘ بعد میں آئرلینڈ کے خلاف سیریز میں کچھ ایسا ہی دیکھا گیا تھا مگر اس سیریز میں پاکستانی بیٹنگ تو کسی حد تک بہتر دکھائی دی لیکن بولنگ کا حال کچھ زیادہ اچھا نہیں تھا۔
اب انگلینڈ کے خلاف سیریز میں پاکستان ٹیم کی جانب سے اگر تجربات کیے بھی گئے تو وہ صرف کامبینیشن کی حد تک ہوں گے کیونکہ پاکستان نے اسی سیریز کی بنیاد پر ورلڈ کپ سکواڈ کا اعلان کرنا ہے۔
امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں دو جون سے کھیلے جانے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے اب تک تقریباً تمام ہی ممالک اب تک اپنے سکواڈز کا اعلان کر چکے ہیں مگر پاکستان نے تاحال سکواڈ کا اعلان نہیں کیا ہے۔
ورلڈ کپ کے لیے حتمی سکواڈز کے اعلان کی آخری تاریخ 25 مئی ہے۔
انگلینڈ کے خلاف سیریز کا دوسرا میچ بھی 25 مئی کو ہی کھیلا جائے گا۔ جس کے بعد اگلے دو میچز 28 اور 30 مئی کو کھیلے جائیں گے۔
تاہم کپتان بابر اعظم کا کہنا ہے کہ ’ہم تقریباً یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ ہم نے ورلڈ کپ اور اس سیریز میں کس کامبینیشن کے ساتھ جانا ہے۔‘
بابر اعظم نے یہ بطی واضح کر دیا ہے کہ انہیں زیادہ تر ون ڈاؤن پوزیشن پر کھیلتا ہی دیکھا جائے گا۔
انہوں نے انگلینڈ کے خلاف سیریز سے قبل پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ ’اس سیریز سے ورلڈ کپ کے لیے مثبت چیزیں اور اعتماد حاصل کرنا ہے۔ کوشش ہے کہ سیریز جیتیں کیونکہ اس سے کافی اعتماد ملتا ہے۔‘
اس سے قبل ریٹائرمنٹ واپس لے کر پاکستان ٹیم میں آنے والے آل راؤنڈر عماد وسیم نے بھی ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’پاکستان اب وہ کرکٹ کھیلے گا جو وہ ہارنے کے بعد کھیلتا ہے۔‘
عماد وسیم کا کہنا تھا کہ ’پاکستان ٹیم ہارنے کے بعد اس شدت اور جوش کے ساتھ کھیلتی ہے اب اسی شدت اور جوش کے ساتھ کھیلتی دکھائی دے گی، اور یہی پلان بنایا گیا ہے۔‘
اس سیریز سے چند روز قبل ہی پاکستان ٹیم کے کوچ گیری کرسٹن نے بھی سکواڈ کو جوائن کر لیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گیری کرسٹن کے حوالے سے عماد وسیم نے بتایا تھا کہ ’گیری نے آتے ہی کچھ باتیں کی ہیں جو لاجیکل ہیں۔‘
اب بات کی جائے انگلش ٹیم کی تو وہ اپنی ہوم کنڈیشن میں ہمیشہ ہی کافی مضبوط ٹیم رہی ہے اور سونے پر سہاگہ سکواڈ میں شامل کئی کھلاڑی آئی پی ایل کھیل کر آ رہے ہیں۔
انگلینڈ کے کپتان جوز بٹلر، جونی بیرسٹو سمیت کئی کھلاڑیوں کو اس سیریز کی وجہ سے آئی پی ایل چھوڑ کر آنا پڑا ہے، جس پر انڈین کرکٹرز اور صحافیوں کی جانب سے ان پر کافی تنقید بھی کی گئی تھی۔
لیکن اس سیریز کے حوالے سے انگلش ٹیم کو آئی پی ایل کا فائدہ بھی ہو سکتا ہے اور نقصان بھی۔ فائدہ یہ کہ وہ ایک طویل ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کھیل کر آ رہے ہیں، فارم بھی ہے اور اعتماد بھی، لیکن نقصان کنڈیشن، پچز میں فرق اور تھکاوٹ کا ہو سکتا ہے۔
لیکن پھر بھی انگلش سکواڈ پر نظر ڈالی جائے تو اس میں شامل کھلاڑیوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی بیٹنگ اور بولنگ دونوں ہی کافی مضبوط ہے۔
انگلش ٹیم کی کپتانی جوز بٹلر کر رہے ہیں، جن کے بعد بیٹنگ میں جونی بیرسٹو، ہیری بروک، بین ڈکٹ، لیئم لیونگ سٹن جیسے بلے باز موجود ہیں۔
اسی طرح بولنگ میں انگلینڈ کو معین علی، فاسٹ بولر جوفرا آرچر، سیم کرن، عادل رشید، ریز ٹوپلے اور مارک ووڈ جیسے بولر دستیاب ہیں۔
فاسٹ بولر جوفرا آرچر طویل عرصے بعد انگلش ٹیم میں واپس کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں ساتھی کرکٹر سیم کرن کا کہنا ہے کہ ’وہ ایسے کھلاڑی ہیں جن کے ہونے سے مخالف ٹیم میں خوف پیدا ہوتا ہے۔‘
دوسری جانب مہمان پاکستان کی کپتانی بابر اعظم کر رہے ہیں جن کے ساتھ بیٹنگ میں صائم ایوب، محمد رضوان، فخر زمان، اعظم خان، متحدہ عرب امارات کو چھوڑ کر آنے والے عثمان خان اپنے جوہر دکھائیں گے۔
بولنگ ویسے تو کچھ وقت سے کافی بے رنگ دکھائی دے رہی ہے مگر پاکستانی بولرز کے تجربے کو دیکھتے ہوئے ان سے اب بھی امیدیں لگائی جا سکتی ہیں۔
ان بولرز میں محمد عامر، شاہین آفریدی، انجری سے واپسی کرنے والے حارث رؤف، حسن علی، شاداب خان اور نسیم شاہ جیسے گیند باز شامل ہیں۔