تجربہ ہے کیا؟ اس ایک لفظ کے معنی کی تلاش میں ہوں۔
یوں تو ہر روز، ہر چیز، ہر عمل الگ تجربہ ہے، بلکہ یہ زندگی بھی ایک تجربہ ہے، جسے حاصل کیا اور بس، چل دیے، لیکن ایسا کیوں ہے کہ جیسے ہی کہیں یہ لفظ استعمال ہو تو ہم اپنی زندگی کے بڑے واقعات کو ہی تجربات کے نام پر یاد کرتے ہیں؟
جیسے، خاندان کی سب سے بڑی شادی، سالگرہ کی تقریب، گرمیوں کی چھٹیوں میں کشمیر کی سیر، کسی اپنے کا بچھڑ جانا، ایسا ہی اور بہت کچھ۔، کیا تجربات بس یہی ہیں؟ یا اس سے آگے تجربات کی ایک الگ دنیا ہے؟
جیسے ٹریفک سے خوفزدہ کسی بچے کو سڑک پار کرا دینا، جیسے 40 دن بعد ابو کا ہسپتال سے ڈسچارج ہو کر گھر واپس آنا، جیسے پہلی بار نرگس کے پھول دیکھنا، جیسے پہلی بار اپنی امی کو گلے لگانا، جیسے دو دوستوں کا خاموشی سے چائے کی میز پر بیٹھنا اور اس دوران ہر گزرتا لمحہ، ایک ایک سیکنڈ، سب تجربہ ہے۔
شاید، گرمی کے اس موسم میں، گرم کمرے میں بیٹھ کر، اپنے ذہن کی ہر سوچ کو کاغذ پر اتار دینا بھی ایک تجربہ ہے، لیکن میں ان تمام تجربات کو قید کیسے کروں؟
ایسے جیسے ہر چیز کہیں نقش ہو جائے، بس یہ خواہش کہ سب کچھ ایک کاغذ پر لکھ کر اسے اس کی منزل پر پہنچا دوں اور اس میں ہو ان لمحات کی کہانی، جو مجھے زندگی بخشے ہوئے ہیں، اور وہ، جو مجھے زندگی سے جوڑے ہوئے ہیں۔
تصور کیجیے، آپ گھر کے آنگن میں بیٹھے ہیں، اندھیرا ہونے کو ہے، پرندے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں، ساتھ پڑا ریڈیو بہترین ساتھی ہونے کا ثبوت دے رہا ہے، اتنے میں گھر کا ٹیلی فون بجتا ہے، کئی روز بعد گھر کے نمبر پر کوئی کال آئی ہے۔
آپ اس ٹیلی فون کی جانب بڑھتے ہیں اور یہ کال ایک پرانے عزیز دوست کی ہے، جس سے آپ تقریباً دس سال بعد بات کر رہے ہیں، وہ کال ایک گھنٹہ چلنے کے بعد، ہمیشہ رابطے میں رہنے کے وعدے پر ختم ہوتی ہے۔
اب اگلا دن ہے اور آپ بازار کسی کام سے آئے ہیں، ذہن میں وہ ایک فون کال نقش ہے، اور آپ پہنچ جاتے ہیں ایک بک سٹور میں، اور اس دکان کے کونے میں ایک ایسا حصہ ہے، جہاں کارڈز رکھے ہیں۔
درجنوں کارڈز میں سے آپ کی نظر پڑتی ہے ایک ایسے کارڈ پر جسے دیکھتے ہی آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ آپ کی دوستی کے لیے ہی بنایا گیا ہے، آپ وہ کارڈ اٹھاتے ہیں، ایک پھونک مار کے، اس پر پڑی گرد صاف کرتے ہیں۔
جیسے ہی آپ وہاں سے باہر آتے ہیں تو بس ایک ہی سوچ ہوتی ہے کہ یہ کارڈ کب آپ کے دوست تک پہنچے گا اور اسے دیکھ کر وہ دوست کتنا خوش ہو گا۔
ہاتھ میں کارڈ پکڑے آپ گھر کو روانہ ہوتے ہیں اور پہنچتے ہی آپ اس کارڈ پر کچھ لکھنے بلکہ اسے سجانے کی بھرپور تیاری شروع کر دیتے ہیں۔
یہ سب تحریر کرتے ہوئے، میرے ذہن میں ان وقتوں کی فلم چل رہی ہے، جب ہم اپنے دوستوں کو ہاتھ سے بنے کارڈز دیتے تھے، سالگرہ ہو، عید یا گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے، سکول کا وہ آخری دن، ساری رونق سب خوشی کارڈ دینے اور دوستوں سے کارڈ وصول کرنے میں ہوتی تھی۔
کارڈ پر بیل بوٹے، اپنی اور اپنی دوست کی شکل بنانے کی کوشش، ٹوٹی پھوٹی لکھائی اور آنکھوں میں چمک، بس زندگی وہی تھی، جب جذبات کے اظہار میں کوئی بناوٹ، کوئی کھوٹ یا کوئی شرم نہیں، بلکہ صرف لگن ہوتی تھی۔
اپنوں سے محبت کا اظہار چند لفظوں میں ہو جاتا تھا، کاغذ کا ایک ٹکڑا سارے جذبات اپنے اندر جیسے جذب کر لیتا تھا، الفاظ کے چناؤ کا عمل کٹھن نہیں تھا، سب سادہ تھا، اور یہ سب بھی ایک تجربہ تھا۔
کیا اس تجربے سے پہلے آپ جانتے تھے کہ پیار اور اس کے اظہار کی یہ چھوٹی سی کوشش، پیار دینے والے اور پیار لینے والے، دونوں کی ہی خوشی کا سبب تھی؟
کارڈ پر لکھنا، ہمارے دماغ کے متعدد حصوں کو مشغول رکھتا ہے، یادداشت کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہے اور ہمارے اعصابی نظام کو ہر دباؤ سے آزاد رکھتا ہے۔
یہ بات سائنسی تحقیق سے بھی ثابت ہے کہ یہ پورا عمل، دونوں افراد میں ڈوپامین کی سطح کو بڑھاتا ہے، جس سے خوشی کا احساس ہوتا ہے اور یہ انسان کی ذہنی صحت کے لیے بہترین ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر آپ نے کبھی کارڈ بھیجا ہو تو ذرا اس خوشی کے بارے میں سوچیں، جو اپنے جذبات، یادیں اور خیال کسی ایسے شخص کے لیے کارڈ میں ڈالتے وقت آپ محسوس کرتے ہیں، وہ جسے آپ دل و جان سے چاہتے ہیں۔
ممکن ہے کہ آپ اس کارڈ کا ایک حصہ بھی خالی نہ رہنے دیں، ہر کونا سجا ڈالیں، مزاحیہ جملوں سے، سمائلی چہروں سے، لال سیاہی والے پین سے ہر چھوٹی خالی جگہ پر دل بنا ڈالیں۔
ممکن ہے کہ آپ صرف وہ کارڈ ہی نہیں، بلکہ اس کارڈ کا لفافہ بھی رنگوں سے بھر دیں، اور محبت بھرے پیغام کو اس کی منزل کی جانب روانہ کر دیں، اس سوچ کے ساتھ کہ ہاتھ سے لکھا یہ پیغام، کسی کا دن بنانے والا ہے۔
اور اسی طرح اگر آپ کارڈ وصول کر رہے ہیں تو یہ بھی ایک بہترین تجربہ ہے۔ ایک تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ اگر آپ کسی اپنے کے ہاتھ سے بنا کارڈ وصول کرتے ہیں، تو اس سے تنہائی کا احساس کم ہوتا ہے۔
ہاتھ سے لکھے لفظ پڑھ کر قربت اور چاہت مزید بڑھتی ہے اور آپ سوچوں کی دنیا میں کھو جاتے ہیں کہ کیسے آپ کے ساتھی نے وقت نکال کر کارڈ بنایا، اس پر لفظوں کی صورت میں اپنے پیار کا اظہار کیا، اور یہی وہ ایک لمحہ ہوتا ہے جب ایک مضبوط کنکشن اپنی جگہ بناتا ہے۔
آج بھی میری سٹڈی ٹیبل پر پڑے، بچپن کی سہیلیوں کے ہاتھ سے بنے کارڈز، میری پوری توجہ کا مرکز ہیں، اور میں آج بھی ان کارڈز میں لکھے ہر لفظ کو پڑھ رہی ہوں، اتنا کہ ان میں لکھا ہر لفظ میرے ذہن میں محفوظ ہو چکا ہے۔
بعض ایسے کارڈ بھی سامنے ہیں کہ جن کو لکھنے والے نہ جانے کہاں گم ہو چکے ہیں۔ یہ بھی بہرحال ایک تجربہ ہے!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔