انڈین دارالحکومت دہلی میں بچوں کے اس غیر لائسنس یافتہ ہسپتال کے مالکان اور اسے چلانے والے عملے کے خلاف اشتعال بڑھ رہا ہے، جس میں ہفتے کے آخر میں آگ لگنے سے سات نوزائیدہ بچے جان سے گئے۔ بچوں کے اہل خانہ ان کی باقیات کو شناخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
آتشزدگی میں جان سے جانے والے بچوں میں سے کچھ اتنے کم عمر تھے کہ ان کا نام تک نہیں رکھا گیا تھا۔ متاثرہ بچوں کے اہل خانہ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ ان کے پاس جلی ہوئی لاشوں کو الگ الگ کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔
پولیس نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ آگ ممکنہ طور پر بجلی کے شارٹ سرکٹ سے شروع ہوئی اور کئی آکسیجن سلنڈر پھٹنے کے بعد تیزی سے پھیل گئی۔
بیبی کیئر نیو بورن چائلڈ ہاسپٹل کے چیف ڈاکٹر اور مالک کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن کے پاس فائر سیفٹی لائسنس، آگ بجھانے والے آلات یا آگ لگنے کی صورت میں عمارت سے باہر نکلنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔
زیادہ تر متاثرہ بچوں کی باقیات کو شہر کے گرو تیگ بہادر ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں دی انڈپینڈنٹ نے 15 دن کی بچی روحی کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔
روحی کی خالہ ونیتا کماری نے بتایا کہ جب انہیں نجی ہسپتال میں داخل کروایا گیا تھا تو انہیں ہلکا بخار تھا اور اہل خانہ سے کہا گیا تھا کہ انہیں 48 گھنٹے تک نگرانی میں رکھنا ہو گا۔ جس صبح روحی کو گھر بھیجا جانا تھا، روحی کے اہل خانہ کو نیند سے بیدار ہونے پر یہ خبر ملی کہ ہسپتال میں آگ لگنے سے سات بچوں کی موت ہو گئی ہے۔
روحی کے اہل خانہ کو اس بات کی تصدیق کرنے میں اتوار کا پورا دن لگ گیا کہ جان سے جانے والے بچوں میں ان کی بچی بھی شامل ہے۔
25 سالہ کماری جو 24 گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی بھانجی کی جلی ہوئی باقیات کی منتظر تھیں، نے کہا کہ ’ہم نے اخبار میں آگ لگنے کے بارے میں پڑھا۔ اس کا پوسٹ مارٹم کر رہے ہیں۔‘
کماری کے بقول: ’ہم ہسپتال سے بھاگتے ہوئے تھانے اور نوزائیدہ بچوں کے مرکز پہنچے، جہاں زندہ بچ جانے والوں کو لے جایا گیا تھا تاکہ اپنی بچی کے بارے میں جان سکیں۔ لیکن تمام کاغذات جل چکے تھے اور بچی کو شناخت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا کیوں کہ جسم کے اعضا بڑی حد تک راکھ میں تبدیل ہو چکے تھے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہسپتال کی طرف سے کسی بھی متاثرہ خاندان کو مطلع نہیں کیا گیا تھا۔ ہم سب کو ذرائع ابلاغ اور دیگر طریقوں سے پتہ چلا۔‘
ڈپٹی پولیس کمشنر سریندر چوہدری نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ دو منزلہ ہسپتال کارآمد لائسنس کے ذریعے چل رہا تھا۔ تفتیش کاروں کو آکسیجن سلنڈر پھٹنے کا پتہ چلا جن کے بارے میں ان کا ماننا ہے کہ ان کی وجہ سے دھماکہ ہوا جس سے آگ تیزی سے پھیل گئی۔
ہسپتال سے دو گلیوں کے فاصلے پر رہنے والے 54 سالہ روی گپتا بستر پر جانے کی تیاری کر رہے تھے جب انہوں نے دھماکے کی آواز سنی۔
انہوں نے کہا: ’ہم اپنے گھروں سے بھاگے اور دیکھا کہ ہسپتال میں آگ لگی ہوئی ہے۔ کسی نے بتایا کہ عمارت کے عقبی حصے میں بچے تھے۔ ہر کوئی جانے سے خوفزدہ تھا کیوں کہ انہیں ہسپتال میں مزید دھماکوں کا ڈر تھا۔ دہلی فائر سروس اور پولیس ابھی تک نہیں پہنچی تھے۔‘
گپتا اور پڑوس کے چار دیگر افراد نے ایک کھڑکی توڑ ی اور کچھ بچوں کو باہر نکالا، جس سے کم از کم چار بچوں کی جان بچ گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ایک شخص کی اندر جانے میں مدد کی اور وہ فوری طور پر چار بچوں کو باہر نکالنے میں کامیاب رہے۔ ہم نے انہیں چادروں میں لپیٹ دیا اور فوری طور پر دوسرے سپتال لے گئے۔ بعد میں (مذکورہ شخص کو) ایک اور بچہ ملا۔‘
15، 20 منٹ بعد کسی نے بتایا کہ اندر کل 11 بچے ہیں۔ ہمارا دوست دوبارہ اندر گیا اور چھ بچوں کو باہر نکالا، لیکن ان میں سے کوئی بھی رو نہیں رہا تھا۔ پڑوس کے ایک ڈاکٹر نے ان میں سے ایک میں دل کی دھڑکن دیکھی لیکن وہ کمزور تھی۔ اور جب تک ہم اسے ہسپتال لے گئے، تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔‘
مرنے والے بچوں میں سے ایک 35 سالہ ونود کمار شرما کا نوزائیدہ بیٹا تھا۔
مردہ خانے کے باہر لاش وصول کرنے کا انتظار کرتے ہوئے انہوں نے کہا: ’میں اپنی بیوی کو کیسے بتاؤں گا، جو اب بھی ہسپتال میں ہے، کہ ہم نے اپنے بچے کو پھر سے کھو دیا۔‘
بچے کا نام ابھی تک نہیں رکھا گیا تھا اور وہ شرما اور ان کی بیوی کے ہاں مردہ بچے کی پیدائش کے ایک سال بعد پیدا ہوا تھا۔ دہلی سے تقریباً 100 کلومیٹر دور میرٹھ شہر میں ہفتہ کی صبح تقریباً پانچ بجے یہ بچہ پیدا ہوا اور صبح ساڑھے 10 بجے اسے نیو بورن بیبی کیئر ہاسپٹل لایا گیا۔
آنسو روکنے کی کوشش میں مصروف شرما کے مطابق: ’اسے ابھی تیز بخار تھا اور ڈاکٹر نے اسے دہلی کے کسی اسپتال میں داخل کروانے کا مشورہ دیا تھا۔
’میری بہن دوپہر کو بچے کو دیکھنے گئیں۔ سب ٹھیک تھا۔ شام کو میں ڈاکٹر کے پاس گیا جنہوں نے کہا کہ بچہ ٹھیک ہے اور وہ اسے ایک دن میں ڈسچارج کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔‘
رات کو انہیں ہسپتال کے ایک ملازم کا فون آیا کہ آگ لگ گئی ہے۔
شرما نے کہا: ’انہوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ دھماکے ہوئے تھے۔ انہوں نے صرف یہ مشورہ دیا کہ ہمیں جا کر بچے کی خیریت معلوم کرنا چاہیے۔جب میں وہاں پہنچا تو پوری عمارت جل چکی تھی اور کوئی بھی مجھے کچھ نہیں بتا رہا تھا۔
’ہم کل سارا دن بچے کو تلاش کرتے رہے۔ آپ اپنے ادھ جلے نوزائیدہ بچے کی شناخت کیسے کریں گے؟ جسے آپ نے ایک بار بھی سکون سے نہیں اٹھایا۔ حکام نے مجھے بتایا کہ صرف چار بچے زندہ بچے ہیں اور میرا ان میں شامل نہیں تھا۔‘
شرما کی اہلیہ میرٹھ کے ایک ہسپتال میں بجے کی پیدائش کے لیے کیے گئے بڑے آپریشن سے صحت یاب ہو رہی ہیں۔
شرما کا کہنا تھا کہ ’وہ نہیں جانتی کہ بچہ اب زندہ نہیں رہا۔ وہ ہمارے بچے کے بارے میں پوچھتی رہتی ہے، لیکن ہم نہیں جانتے کہ اسے کیا بتانا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
40 سالہ انذر چوہدری نے اپنی 12 دن کی بیٹی کو آگ میں کھو دیا۔ انہوں نے اس کا نام فاطمہ رکھا تھا۔
جلے ہوئے ہسپتال کے باہر کھڑے انذر کا کہنا تھا کہ ’میں ہر روز اس سے ملنے جاتا تھا۔ اس کے بال میرے جیسے تھے۔
’میں نے اسے کل دفن کر دیا۔‘
وہ کہتے ہیں: ’میں اب یہاں دوسرے خاندانوں سے ملنے آیا ہوں، جن کی خوشیاں میری طرح ماند پڑ چکی ہیں، تاکہ ہم مل کر انصاف مانگ سکیں۔
’میں چاہتا ہوں کہ اس تباہی کے ذمہ دار تمام افراد اور بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینے والے تمام افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔‘
پولیس نے ہسپتال کے مالک ڈاکٹر نوین کھچی کو غیر ارادی قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔
ابتدائی تحقیقات کے مطابق ہسپتال کے لائسنس کی میعاد ختم ہو چکی تھی۔ ہسپتال میں زیادہ سے زیادہ پانچ بستروں کی اجازت تھی لیکن جب آگ لگی تو ہسپتال میں 12 نوزائیدہ بچے داخل تھے۔
دہلی حکومت نے مجسٹریٹ کو واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے اور زخمیوں کے مفت علاج کا اعلان کیا ہے۔
ریاست کے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے ہسپتال میں لگنے والی آگ کو ’دل دہلا دینے والا‘ واقعہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ’واقعے کی وجوہات کی انکوائری کی جا رہی ہے اور جو بھی اس لاپروائی کا ذمہ دار ہے اسے بخشا نہیں جائے گا۔‘
انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کے دفتر نے جان سے جانے والے سات بچوں میں سے ہر ایک کے خاندان کو دو لاکھ انڈین روپے (1881 پاؤنڈ) معاوضہ دینے کا اعلان کیا ہے۔
ایک بیان میں وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’دہلی کے ایک ہسپتال میں آتشزدگی کا واقعہ افسوسناک ہے۔ اس مشکل وقت میں میری ہمدردیاں سوگوار خاندانوں کے ساتھ ہیں۔
’میں دعا کرتا ہوں کہ زخمی جلد از جلد صحت یاب ہوں۔‘
تاہم شرما حکومت کے ردعمل سے ناراض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگر آپ میرے بچے کو اسی حالت میں مجھے لوٹا دیں گے جیسا وہ تھا، تو میں آپ کو 10 گنا زیادہ معاوضہ دوں گا۔‘
دی انڈپینڈنٹ نے دہلی کے وزیر صحت سوربھ بھردواج سے تبصرہ کے لیے رابطہ کیا ہے۔
© The Independent