اقوام متحدہ کے امن دستے کے پاکستانی اہلکار میجر فرقان نیازی پر حملے کی کہانی

اقوام متحدہ کے پاکستان سے تعلق رکھنے والے امن دستے پر اس وقت گھات لگا کر حملہ کیا گیا جب وہ سوڈان اور جنوبی سوڈان کے درمیان کے علاقے أبيے میں زخمی شہریوں کو ہسپتال لے جا رہا تھا۔ میجر فرقان نیازی بھی ان میں شامل تھے۔

پاکستان دنیا بھر کے 29 ممالک میں اقوام متحدہ کے 46 امن مشنز میں خدمات انجام دے چکا ہے۔

ایتھوپیا اور روانڈا کے بعد پاکستان کی مسلح افواج اقوام متحدہ کی امن کوششوں میں فوج بھیجنے والی چھٹی بڑی فوج ہے۔

2023 تک اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 1948 سے اب تک 168 پاکستانی فوجی امن مشنز میں خدمات کے دوران اپنی زندگی کھو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق تنازعات سے متاثرہ ممالک میں پائیدار امن کے لیے حالات پیدا کرنے میں مدد کرنے کا عمل ہے۔

اقوام متحدہ کے امن دستے جن میں عام طور پر فوجی افسران اور کئی ممالک کے سویلین اہلکار شامل ہوتے ہیں، جنگ کے بعد خطوں میں ابھرنے والے امن کے عمل کی نگرانی اور مشاہدہ کرتے ہیں اور سابق جنگجوؤں کو ان کے دستخط کردہ امن معاہدوں پر عمل درآمد میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

پاکستان کا سب سے بڑا نقصان پانچ جون 1993 میں موغادیشو میں ہوا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہر سال 29 مئی کو اقوام متحدہ ان امن فوجیوں کی خدمات کو سراہنے کے لیے ان کا عالمی دن مناتی ہے۔ البتہ ہر روز اقوام متحدہ کے امن دستے خطرے سے دوچار لوگوں کو حفاظت فراہم کرتے ہیں اور ایک نازک امن کے قیام کی کوشش میں مدد کرتے ہیں۔

رواں سال جنوری میں اقوام متحدہ کی زخمی شہریوں کو لے جانے والی ایک گاڑی پر گھات لگا کر کیے جانے والے حملے میں ایک امن اہلکار اور متعدد کمیونٹی ارکان جان سے گئے۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے میجر فرقان نیازی نے حملے کے دوران زندگیاں بچاتے ہوئے اپنے ایک ساتھی کو کھونے کی کہانی بیان کی ہے۔

اقوام متحدہ کے پاکستان سے تعلق رکھنے والے امن دستے پر اس وقت گھات لگا کر حملہ کیا گیا جب وہ سوڈان اور جنوبی سوڈان کے درمیان کے علاقے أبيے میں زخمی شہریوں کو ہسپتال لے جا رہا تھا۔ میجر فرقان نیازی بھی ان میں شامل تھے۔

ان کی اہلیہ نے جب انہیں شوہر کے زخمی ہونے کی خبر ملی تو کس صورت حال کا مقابلہ کیا اسے بیان کیا۔ ’جس دن انہیں گولی لگی ان کا پورا خاندان گھر پر تھا۔ ہمیں مکمل معلومات نہیں ملیں تھیں۔

’میں جانتی تھی کہ وہ کہاں جا رہے ہیں، اس وقت میں خوفزدہ تھی کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ وہ ایک ایسی جگہ پر تھے جو واضح طور پر خطرناک تھی۔ آج بھی ان کے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ انہیں گولی لگی تھی۔

’خوش قسمتی سے میجر فرقان دو ماہ کے علاج کے بعد رو بصحت ہوئے اور اب دوبارہ اپنی ڈیوٹی پر آگئے ہیں۔‘

مزید تفصیل ویڈیو میں فراہم کی گئی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین