بحریہ ٹاؤن کے دفتر پر چھاپے کا مقصد ثبوت اکٹھے کرنا تھا: نیب

بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض کا کہنا ہے کہ منگل کو رات گئے راولپنڈی میں ان کی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ’دفاتر میں توڑ پھوڑ کی گئی اور تعینات سکیورٹی اور عملے کو ہراساں کیا گیا اور بعد میں اغوا کرلیا گیا‘، تاہم نیب حکام نے کسی گرفتاری کی تردید کی ہے۔

21 جون 2012 کی اس تصویر میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض اسلام آباد میں سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے بعد نکلتے ہوئے (اے ایف پی)

بڑی کاروباری شخصیت اور نجی ہاؤسنگ سوسائٹی بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض نے منگل کو رات گئے راولپنڈی میں اپنے ’دفاتر میں چھاپوں اور توڑ پھوڑ کے ساتھ عملے کے اغوا‘ کا دعویٰ کیا، تاہم قومی احتساب بیورو (نیب) نے کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے ’گرفتاریوں کی تردید‘ کی ہے۔

ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر رات گئے ایک بیان میں بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین نے کہا: ’ملک ریاض وعدہ معاف گواہ نہیں بنے گا۔ راولپنڈی میں بحریہ ٹاؤن کے دفاتر پر سرکاری مشینری نے بغیر کسی قانونی اختیار کے چھاپے مارے ہیں۔‘

انہوں نے ان چھاپوں کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ کارروائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔ ’اس دوران دفاتر میں توڑ پھوڑ کی گئی اور دفاتر میں تعینات سکیورٹی اور عملے کو ہراساں کیا گیا اور بعد میں اغوا کرلیا گیا۔‘

تاہم نیب کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بحریہ ٹاؤن کے فیز ٹو کے دفتر پر، جس کی حدود اسلام آباد میں ہے، چھاپہ مارا گیا، جس کا مقصد ثبوتوں کی دستاویزات حاصل کرنا تھا۔

تاہم نیب اہلکار نے ملک ریاض کے ’بحریہ ٹاؤن کے عملے‘ سے متعلق بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’کسی کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا۔‘

اس سوال پر کہ ’کیا بحریہ ٹاؤن کے دفاتر پر چھاپے 190 ملین پاؤنڈ کیس کے حوالے سے تھے؟‘ نیب اہلکار نے جواب دیا کہ ’یہ چھاپہ اس مقدمے کے حوالے سے نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کے خلاف مشکوک لین دین کی رپورٹ سے متعلق مقدمے کے سلسلے میں تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض اور ان کے بیٹے علی ریاض کو القادر ٹرسٹ اور 190 ملین پاؤنڈ کیس میں اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے اور ان کی جائیداد کو ضبط کرنے کے عدالتی احکامات بھی دیے جا چکے ہیں۔

یہ سب ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب 190 ملین پاؤنڈ کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی رہنما اور سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف مختلف گواہان کے بیانات جاری ہیں۔

عمران خان اور ان کی اہلیہ پر الزام ہے کہ انہوں نے بحریہ ٹاؤن سے سینکڑوں کنال پر محیط اراضی کی رقم قانونی حیثیت دینے کے لیے حاصل کی، جس کی نشاندہی برطانیہ کے حکام نے کی تھی، جسے بعد ازاں واپس کر دیا گیا تھا۔

بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین نے بیان میں مزید کہا کہ ’ملک ریاض وعدہ معاف گواہ نہیں بنے گا، جو چاہے مجھ پر ظلم کرو۔ کسی بھی سیاسی اقتدار کی جدوجہد میں فریق نہ بننے کے اپنے عوامی اعلان کے بعد، مجھے کھلی توڑ پھوڑ اور ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میں بحریہ ٹاؤن کے خلاف ان فاشسٹ، غیر قانونی، دھمکی آمیز اقدامات کی شدید مذمت کرتا ہوں۔‘

ملک ریاض کے مطابق چھاپہ مار ٹیمیں ’پانچ ہزار سے زائد اہم پراجیکٹ کی فائلیں، دفتر کا ریکارڈ، 23 کمپیوٹر، نیٹ ورک ڈیٹا، محکمانہ نقدی اور نو گاڑیاں زبردستی اپنے ساتھ لے گئی ہیں‘ جبکہ ’ہاؤسنگ سوسائٹی کے دفتر کی عمارت کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ 50 لاکھ روپے کے قریب ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کے عملے کے نو ارکان کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔

ملک ریاض نے چھاپے کا پس منظر بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’گذشتہ ماہ بحریہ ٹاؤن کی بہت سی جائیدادوں اور اکاؤنٹس کو ضبط کرنے کے بعد، یہ چھاپے صرف اپنے سیاسی ایجنڈوں کے لیے، بحریہ ٹاؤن پر دباؤ ڈالنے کے لیے ریاستی اداروں کی جانب سے بے لگام بدمعاشی کی عکاسی کرتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سے ان کا کاروبار تباہ نہیں ہو رہا بلکہ ملک کی معاشی ترقی کو روکا جا رہا ہے۔

انہوں نے وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب، وزارت داخلہ، نیب اور ایف آئی اے کے سربراہان سے بحریہ ٹاؤن کے عملے کو فوری طور پر رہا کرنے اور دفاتر سے تمام دستاویزات اور ضبط شدہ سامان واپس کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان