باکو کا شاہ رخ خان

ہم ٹی وی پر نشر ہونے والے ڈرامے ’ویری فلمی‘ کی کہانی میں انفرادیت یہ ہے کہ اس میں مکمل طور پر فلم سے متعلق کرداروں پہ کہانی کی بنت ہوئی ہے۔

ڈراما ’ویری فلمی‘ بھی رمضان میں ہم ٹی وی سے نشر ہو رہا ہے (ہم ٹی وی/ انسٹاگرام)

رمضان شروع ہوتے ہی تمام مسلم دنیا میں مخصوص ڈرامے اور پروگرامز بھی شروع ہو جاتے ہیں، یعنی یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ رمضان کے چاند کے ساتھ ہی ڈراموں کا چاند بھی نمودار ہوتا ہے اور 30 روزوں کے دوران 30 اقساط کا اہتمام ہوتا ہے۔

پاکستان میں بھی سب ہی چینلز سے رمضان کے ڈرامے نشر ہو رہے ہیں، جو یا تو اصلاحی و سنجیدہ ہوتے ہیں یا پھر مزاحیہ۔

ایسا ہی ایک مزاحیہ ڈراما ’ویری فلمی‘ بھی رمضان میں ہم ٹی وی سے نشر ہو رہا ہے۔

اس ڈرامے کی کہانی میں انفرادیت یہ ہے کہ اس میں مکمل طور پر فلم سے متعلق کرداروں پہ کہانی کی بنت ہوئی ہے۔

وہ فلمی صنعت جس نے کراچی میں اپنے عروج کا دور دیکھا اور اس کے بعد لالی وڈ یعنی لاہور میں اپنے عروج کے مدارج طے کرتے ہوئے زوال کا شکار ہو گئی لیکن فن انسان کے اندر سے کب نکلتا ہے۔

ڈرامے میں تیسری نسل پھر فلم بنا رہی ہے۔

فلم کی دنیا میں نئی نسل وہ ہے جو یونیورسٹی سے فلم پڑھ کر آ رہے ہیں۔ بہت سے فنکاروں کے بچے باہر سے فلم پڑھ کر آئے ہیں اور جو ایک بار باہر رہنے کا عادی ہو جائے اس کے لیے پھر اپنا ملک گاؤں ہی بن جاتا ہے۔

ڈرامے میں بھی اس نسل کا یہی خیال دکھایا گیا ہے کہ یہ دیسی قسم کے لوگ ہیں۔ ان کو کیا پتہ فلم کیا ہے؟ آرٹ کیا ہے؟ مگر ساتھ ہی ساتھ ایسے کردار بھی موجود ہیں جو اپنے ملک کے سینیما اور یہاں کی فلمی صنعت سے مایوس نہیں ہیں۔

دانش اور دانیہ ایسے ہی کردار ہیں۔ دادی، صنم اور دانیہ فلم کی تین نسلیں تین کہانیاں ہیں۔

ابھی کہانی اپنی اوائل عمری میں ہے اس لیے بچپنا زیادہ ہے، جوں جوں آگے بڑھے گی اس کی سنجیدگی اور موضوع کی گہرائی سمجھ آنے لگے گی۔

ڈراما بنیادی طور پر مزاحیہ ہے لیکن یہ موضوع ایک سنجیدہ ڈرامے کا تقاضا کرتا تھا۔ اس موضوع کو سنجیدگی سے بھی ناظر تک لانا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگرچہ موضوع سے ہٹ کر بات کی جائے تو اس ڈرامے کا مقصد بھی ہر ڈرامے کی طرح شادی کروانا ہی ہے لیکن اس ڈرامے میں تو کئی ٹوٹے پھوٹے خاندان ہیں اور کئی کنوارے لڑکے لڑکیاں ہیں جنہیں آپس میں ہی جفت کرنا ہے۔

ایک لڑکوں والا گھر ہے، ایک لڑکیوں والا گھر ہے، اسے ملا کر خاندان بنانا ہے۔ ڈرامے میں تین چار شادیاں ہی ڈھنگ سے کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

روحان ایک پاکستانی نژاد باکو کا ہیرو ہے، جس کے والد نے اسے پاکستانی لڑکی دانیہ کو دیکھنے بھیجا ہے اور بات کھینچ تان کر منگنی تک پہنچ ہی گئی ہے۔

روحان کے بھاگ کے ساتھ اس کے ماموں کو بھی اپنا نصیب کھلتا نظر آ رہا ہے۔

روحان نے فلم پڑھی ہے اور فیچر فلم بنانا چاہتا ہے۔ اس کی ایک فلم، فلم فیسٹیول کے لیے منتخب ہو گئی ہے۔ وہ دانیہ سے شادی نہیں کرنا چاہتا مگر باپ کے سامنے مجبور ہے۔

دانیہ کو اس کی دادی نے پالا ہے، اس نے بھی فلم پڑھی ہے اور وہ بھی بلوچستان کے علاقائی رقص پر ڈاکیومنٹری فلم بنا رہی ہے۔ اس کے والدین میں ایک فلمی اداکارہ صنم کی وجہ سے علیحدگی ہو چکی ہے۔

دانیہ بھی شادی نہیں کرنا چاہتی اور روحان سے تو بالکل نہیں کرنا چاہتی۔

دونوں ابھی اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہیں۔ آج کی نسل شادی سے اس لیے بھی بھاگ رہی ہے کہ ایک طرف تو شعور کے نام پہ ان کو ہر طرح کی مناسب آزادی دی جاتی ہے۔ دوسری طرف شعور کی شہہ رگ پہ چاقو رکھ کر ان کی جبری شادی کی کوشش کی جاتی ہے، یوں نسلیں شادی سے بد ظن ہو رہی ہیں۔

اگرچہ موضوع سے ہٹ کر بات کی جائے تو اس ڈرامے کا مقصد بھی ہر ڈرامے کی طرح شادی کروانا ہی ہے

دانیہ کے والد احسان بھی فلمی صنعت سے ہی وابستہ رہے ہیں۔

دانش اور دانیہ فیملی فرینڈز ہیں۔ دانش کا ایک سینیما گھر ہے جو وہ فروخت نہیں کرنا چاہتا جبکہ اسے اس جگہ پلازہ بنانے کی اور یہ سینیما فروخت کرنے کی بھاری رقم بھی مل رہی ہے اور اس کی منگیتر ماہم بھی یہی چاہتی ہے کہ وہ بزنس کرے۔

ایک زوال شدہ صنعت کو زندہ کرنے میں اپنا وقت ضائع نہ کرے۔ دانش کی بھی یہ جبری منگنی ہے۔ دانش دانیہ کو پسند کرتا تھا، مگر ماہم سے اس کو منگنی کرنا پڑ گئی۔

جب تک جبری شادیاں اور منگنیاں ہوتی رہیں گی، سماج اور ڈراما دونوں کی کہانی نہیں بدلے گی۔ نہ ہی نسلوں کی سوچ بدلے گی کیونکہ ہر نئی نسل اپنی آدھی توانائی تو اپنی پسند کی جگہ شادی کرنے میں ہی لگا دیتی ہے۔

شادی سے بچنے کے لیے وہ ڈھیروں ڈرامے کرتی ہے مگر والدین خود اس وقت سے گزر کر بھی نہیں سمجھتے کہ ان کے بچے ایک مکمل انسان ہیں۔ ان کو اپنی غلطی خود کرنے کا پورا حق ہے۔ وہ ان کو ہر شے ان کی مرضی سے کرنے دے سکتے ہیں، سوائے ان کے ہمسفر کے۔

ڈرامے نے اس نکتے کو مزاح مزاح میں نمایاں کرنے کی اچھی سعی کی ہے۔

روحان کے ماموں کی کرش بھی صنم جی ہیں، جن کی وجہ سے انہوں نے بھی آج تک شادی نہیں کی۔ روحان کی منگنی پہ صنم کا آ جانا، ماموں کے لیے امید کی کرن بنا ہے۔

دانش کی بہن ڈیزائنر ہے۔ دانیہ کی دادی کا انداز بتا رہا ہے کہ ان کا تعلق شعبہ فلم سے رہا ہے مگر سماجیات میں ابھی اتنی بڑی فنکارہ گمنام دکھائی دے رہی ہیں۔

یوں مل ملا کر سارا ماحول فلمی ہے۔ سکرین پہ نظر آنے والے افراد کی زندگی میں پیش آنے والی مشکلات دکھائی گئی ہیں۔

فرضی فلمی کردار کی وجہ سے مصنوعی فلمی پن بھی دکھائی دے رہا ہے جس میں اداکار کے لیے تو اپنے جوہر دکھانے کا زیادہ موقع ہے، مگر ناظر پہ کہیں کہیں بھاری ہو جاتا ہے۔

گلیمر کے پیچھے کی محرومیوں اور مجبوریوں پہ بات ہوئی ہے۔ نئی نسل کی فلم کے حوالے سے امید پہ بات ہوئی ہے۔

ہمارے سماج میں فلم کو ایک اچھا میڈیم نہیں سمجھا جاتا، نہ ہی فلم سے جڑے لوگوں کو وہ عزت ملتی ہے جو ان کا حق ہے۔ اس وجہ سے ان کےاندر جو تنہائی پیدا ہو جاتی ہے اس کو مذاق میں بیان کر دیا گیا ہے۔

بہت سے نمایاں فلمی نام وقت کے ساتھ گوشہ نشین ہو جاتے ہیں۔ ان کے اندر اک کسک رہ جاتی ہے وہ بھی دکھائی گئی ہے۔

کراچی کے ثقافتوں سے بھرے ماحول میں ڈراما عکس بند کیا گیا ہے۔ دانیہ کو شاہ رخ خان پسند نہیں ہے اور روحان اپنے بھائی کے مشورے سے شاہ رخ خان کا ایک فرضی سا حلیہ اپنا کر اس کی زندگی میں آیا ہے اور پھنس گیا ہے۔

یہ باکو کا شاہ رخ خان اپنے والدین کے سامنے تو شادی سے انکار کر نہیں سکتا، پاکستانی پارو پہ اس نے انکار کی ذمہ داری ڈال دی ہے۔ وہ بھی پاکستانی حسینہ ہے، انکار نہیں کر سکتی ہے۔ ابھی تک تو وہ اپنی ماں کی طلاق کی وجہ تلاش رہی ہے۔ ایسے بچے شادی کو قبول کرنے میں وقت لیتے ہی ہیں۔

فرضی فلمی کردار کی وجہ سے مصنوعی فلمی پن بھی دکھائی دے رہا ہے جس میں اداکار کے لیے تو اپنے جوہر دکھانے کا زیادہ موقع ہے، مگر ناظر پہ کہیں کہیں بھاری ہو جاتا ہے۔

وہی لباس، وہی انداز جو شاہ رخ خان اور اس کی مشہور فلموں اور کرداروں میں تھا، یہ دیکھنا ناظر کو اچھا بھی لگ سکتا ہے، کسی کو اچھا نہیں بھی لگ سکتا کیونکہ دنیا میں ہر طرح کے انسان موجود ہوتے ہیں۔

اگر شاہ رخ خان کا کردار نہ بھی آتا تو کہانی میں دم تھا۔

ایک کردار بالکل اصلی ہے جو گھر کی پرانی ملازمہ ’شنو‘ کا کردار ہے۔ اس نے کیا اداکاری کی ہے۔ کیا گیٹ اپ اپنایا ہے۔ کیا انداز تکلم اپنایا ہے۔

پرانے ملازم گھر کا حصہ ہوتے ہیں اور اس نے اپنا یہ حصہ بہت عمدہ نبھایا ہے۔ دادی کا کردار بشریٰ انصاری ادا کر رہی ہیں۔

خاموش سین پر ان کی گرفت اتنی زبردست ہے کہ وہاں ان کا تجربہ بول ہی نہیں رہا بلکہ برس بھی رہا ہے۔ ان جیسی سمجھ دار دادی اگر ہر پوتی کو نصیب ہو جائے تو پاکستان کی تقدیر اور آبادی کی شرح ہی بدل جائے۔

محمد احمد نے ڈراما لکھا ہے اور ہدایات علی حسن کی ہیں۔ مومنہ درید کی پیشکش ہے۔ او ایس ڈی بھی نثری نظم میں ڈرامے کی کہانی ہی ہے۔ جدیدیت کے سارے رنگ ہر حصے میں موجود ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی