ڈاکٹر قدیر آخری عمر میں مایوس کیوں ہو گئے تھے؟

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ڈاکٹر قدیر کی آخری زندگی کافی پابندیوں میں گزری۔

ڈاکٹر قدیر کا پاکستان کے طاقتور ترین افراد میں شمار ہوتا تھا (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

گذشتہ  منگل کو پاکستان میں ایٹمی دھماکوں کی 26ویں سالگرہ منائی گئی تو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ڈاکٹر قدیر کا ایک آٹو گراف کافی گردش میں ملا جس پر 13 پریل 2012 کی تاریخ درج ہے۔ یہ دراصل ایک شعر ہے جس میں انہوں نے اپنا تخلص بھی استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ شعر بھی کہتے تھے:

گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر

ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے

پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ڈاکٹر قدیر کی آخری زندگی کافی پابندیوں میں گزری۔ جنرل مشرف کے دور میں جب پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر امریکی دباؤ میں اضافہ ہوا تو ڈاکٹر قدیر اور اس وقت کی اشرافیہ کے درمیان تناؤ پیدا ہوا جس کا غماض ان کا یہ شعر بھی ہے۔

ڈاکٹر قدیر جو کبھی پاکستان کے طاقتور ترین افراد میں شمار ہوتے تھے وہ آخری عمر میں کیوں مایوس ہو گئے تھے؟ اور جس سے بھی ملتے تھے شکوہ کناں رہتے تھے۔

الطاف عباسی، بھٹو، قذافی اور ڈاکٹر قدیر

افسانوی کردار کی حامل ایک شخصیت الطاف عباسی کی ہے جس نے ابتدائی زمانے میں پاکستان اور ڈاکٹر قدیر کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کیا تھا۔ ان کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع  باغ سے ہے۔ 60 کی دہائی میں ان کے والد کراچی میں راشن ڈپو چلاتے تھے جہاں اس زمانے میں ڈاکٹر عبد القدیر بطور انسپیکٹر اوزان و پیمانہ جات آتے جاتے تھے۔

یہیں کبھی کبھار الطاف عباسی سے ان کی ملاقات ہو جایا کرتی تھی۔ بعد میں ڈاکٹر قدیر ہالینڈ میں پی ایچ ڈی کرنے چلے گئے اور الطاف عباسی لندن میں پڑھنے چلے گئے۔ یہی وہ دور تھا جب کرنل قذافی لندن میں برٹش آرمی کی اکیڈمی میں زیر تربیت تھے۔

ہائیڈ پارک کی ایک کافی شاپ میں ہونے والی ملاقات جلد دوستی میں بدل گئی، بعد میں یہ دوستی کرنل قذافی کی وفات تک قائم رہی۔ الطاف عباسی ایوب کے خلاف تحریک میں نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے متحرک رہے تھے، اس لیے بھٹو سے بھی ان کی خاصی شناسائی تھی جو جلد دوستی میں بدل گئی۔

بھٹو کی پھانسی کے بعد میر شاہنواز اور میر مرتضیٰ بھٹو کے قریبی حلقے میں شمارہوتے تھے۔ الذوالفقار کے بانیوں میں شامل تھے اور ان کا نام ان 54 افراد میں شامل تھا جن کی رہائی اس طیارے کی ہائی جیکنگ کے بدلے ہوئی تھی جسے الذوالفقار نے اغوا کر کے دمشق پہنچایا تھا۔

برطانیہ میں چینل فور سے بھی منسلک رہے ہیں اور آج کل برطانیہ میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔

جب پہلی بار بھٹو کا پیغام ڈاکٹر قدیرکو ملا

الطاف عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو کو وہ واقعہ بتایا کہ کیسے وہ ڈاکٹر قدیر کو منا کر پاکستان لائے تھے۔

 وہ کہتے ہیں کہ جب انڈیا نے 1974 میں ایٹمی دھماکہ کیا تو بھٹو ہر قیمت پر پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانا چاہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے انہیں کسی نے بتایا تھا کہ ایک پاکستانی سائنس دان ہالینڈ میں ایٹمی پروگرام سے منسلک ہے۔

’انہوں نے اس سے رابطے کا ٹاسک مجھے دیا۔ میں چونکہ انہیں اس دور سے جانتا تھا جب وہ ہماری دکان پر آیا کرتے تھے اس لیے میں بھٹو کا پیغام لے کر ہالینڈ میں ان سے جا کر ملا۔ کشمیر کونسل کے ممبر ڈاکٹر غلام محمد لون سے ان کا ایڈریس لیا تھا۔

’انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ ایٹم بم بنانا ایک بہت مہنگا سودا ہے اس لیے پاکستان جیسے غریب ملک کے لیے یہ ممکن نہیں۔ بھٹو کو جا کر کہیں کہ یہ خیال دل سے نکال دیں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے وہ پاکستان آئے تھے لیکن مایوس ہو کر واپس چلے گئے تھے اور اب کسی قیمت پر واپس نہیں آنا چاہتے تھے جبکہ دوسری طرف بھٹو انہیں ہر قیمت پر پاکستان لانا چاہتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یوں پاکستان اور ڈاکٹر قدیر کے درمیان عبد الکریم کے فرضی نام سے مراسلت شروع ہو گئی۔ بھٹو نے مجھے ان کے پاس بھیجا تو انہوں نے کہا کہ وہاں ایک سوئی تک خریدنے کی رقم نہیں ہے اور بھٹو ایٹم بم بنانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ ڈاکٹر قدیر نے کہا کہ اگر بھٹو سیریس ہیں تو مجھے ایک سو ملین ڈالر کی گارنٹی دیں۔

’میں نے بھٹو کو آکر کہا کہ یہ معاملہ ہے۔ اس زمانے میں پاکستان کے پاس اتنی رقم نہیں تھی۔ اس لیے یہ رقم پاکستان کے ایک دوست ملک نے دی۔ جب ڈاکٹر قدیر نے لیبارٹری میں یورینیئم افزودہ کرنے میں کامیابی حاصل کر لی تو بھٹو بہت خوش ہوئے اور اسی کے بعد سے ہی وہ اسلامی بلاک کی باتیں کرنے لگے تھے۔‘

ڈاکٹر قدیر کے ساتھ جو وعہدے کیے گئے وہ پورے نہیں ہوئے

الطاف عباسی کہتے ہیں کہ ان کا ڈاکٹر قدیر سے گاہے بگاہے رابطہ رہتا تھا۔ ان کی وفات سے پہلے جب آخری رابطہ ہوا تھا تو وہ اپنے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر سخت پریشان تھے۔

’انہیں جس طرح قربانی کا بکرا بنایا گیا اس کی کہانی صرف ان پر عائد کی جانے والی پابندیوں تک محدود نہیں تھی بلکہ ان کا خیال تھا کہ ان کی نجی زندگی کو بھی تباہ کروایا گیا ہے۔‘

’وہ کہتے تھے کہ یہ قوم اپنے محسنوں کو بھی نہیں بخشتی۔ بھٹو کے ساتھ جو ہوا وہی ان کے ساتھ دہرایا جا رہا ہے۔‘

الطاف عباسی کہتے ہیں کہ ’ڈاکٹر قدیر کا کسی دوسرے ملک کو ایٹمی ٹیکنالوجی  دینے میں کوئی کردار نہیں تھا مگر انہیں پاکستان کی خاطر ایک بیان دے کر ٹی وی پر پڑھوایا گیا جسے انہوں نے قوم کے وسیع تر مفاد میں پڑھ دیا مگر اس کے بعد وہ قربانی کا بکرا بنا دیے گئے۔

’ان سے جو وعدے کیے گئے وہ پورے نہیں کیے گئے۔ آخری عمر میں وہ بہت مایوس تھے اور سمجھتے تھے کہ ان کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے وہ اس کے حق دار نہیں تھے۔‘

نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ