افغانستان نے داسو حملے، دہشت گردی کی تحقیقات میں تعاون پر اتفاق کیا: پاکستان

ممتاز زہرہ بلوچ کے مطابق افغانستان نے اپنی سرزمین کو کسی بھی شدت پسندی کی کارروائی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کا اعادہ کیا ہے۔

اسلام آباد میں پاکستانی دفتر خارجہ کی عمارت کا بیرونی منظر (سہیل اختر/انڈپینڈنٹ اردو)

ترجمان وزارت خارجہ نے جمعے کو بتایا کہ داسو ڈیم واقعے کے پیش نظر افغانستان نے اپنی سرزمین سے کسی بھی ’دہشت گردی کی کارروائی‘ کی تحقیقات کا جائزہ لینے اور اسے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

رواں برس 26 مارچ کو صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ میں اسلام آباد سے داسو ڈیم جانے والے گاڑیوں کے ایک قافلے پر کیے گئے خودکش حملے میں پانچ چینی انجینیئرز سمیت چھ افراد جان سے چلے گئے تھے۔

بعد ازاں افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ نے کہا تھا کہ ’اس حملے کی منصوبہ بندی پڑوسی ملک افغانستان میں کی گئی تھی جبکہ خودکش حملہ آور افغان تھا۔‘

جمعے کو ہونے والی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ پاکستان نے بشام حملے کے نتائج سے آگاہ کیا ہے اور مجرموں کی گرفتاری میں افغانستان سے مدد بھی مانگی ہے۔

ممتاز زہرہ بلوچ کے مطابق افغانستان نے اپنی سرزمین کو کسی بھی شدت پسندی کی کارروائی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے کا اعادہ کیا ہے۔

’انہوں نے تحقیقات کے نتائج کا جائزہ لینے اور انہیں منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔‘

دفتر خارجہ نے یہ بیان انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کے جواب میں دیا۔ ترجمان سے سوال کی گیا تھا کہ کیا پاکستان نے افغان حکومت سے بشام واقعے کے ذمہ داران کو پاکستان کے حوالے کرندے کا مطالبہ کیا ہے اور کیا پاکستان کے اندر شدت پسند گرد گروپوں کے خلاف مکمل آپریشن پر غور کیا جا رہا ہے؟

ترجمان نے کہا ہے اس شدت پسند کارروائی کے حوالے سے پاکستانی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پاکستان کے اندر دہشت گرد تنظیموں اور شدت پسندوں کے خلاف ایکشن لیتے ہیں، پاکستان ان شدت پسند گروہوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف لڑنے کے لیے پرعزم ہے۔

’قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی اداروں نے جانیں گنوائیں اور پاکستانی عوام نے قیمت ادا کی۔ لہذا پاکستان ان دہشت گرد عناصر سے لڑنے کے لیے پرعزم ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترجمان نے مزید کہا کسی بھی مخصوص کارروائی کے بارے میں خصوصی تفصیلات کے حوالے سے متعلقہ محکمے سے رابطہ کرنا ہوگا۔

گذشتہ روز دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے سیکریٹری داخلہ کی قیادت میں ایک وفد نے جمعرات کو افغانستان میں طالبان عبوری حکومت کے نائب وزیر داخلہ سے ملاقات کی۔

اس اجلاس میں سیکریٹری داخلہ نے دو ماہ قبل پاکستان کے علاقے بشام میں ہونے والے چینی انجینئرز پر حملے سے متعلق تحقیقات میں مدد کی درخواست بھی کی۔

افغان خبر رساں ایجنسی باختر نیوز کے مطابق پاکستانی وفد نے زور دیا کہ خطے میں امن و امان سب کے مفاد میں ہے اور امید ظاہر کی کہ کچھ موجودہ مسائل جلد حل ہو جائیں گے۔

رپورٹ کے مطابق افغان نائب وزیر داخلہ نے وفد کا خیرمقدم کیا اور اس طرح کے دوروں کو مسائل کے حل اور تعلقات کے فروغ میں کارگر قرار دیا۔

 طالبان عبوری حکومت کے نائب وزیر داخلہ محمد نبی عمری نے اپنی حکومت کی نیک نیتی کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان جو اپنے لیے امن چاہتا ہے، دوسروں کے لیے بھی نیک خواہشات رکھتا ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ ’امارت اسلامیہ‘ بدامنی کی منفی سیاست پر یقین نہیں رکھتی اور خطے میں امن کو اپنے اور سب کے لیے اچھا سمجھتی ہے۔‘

مولوی محمد نبی عمری نے کہا کہ ’بشام دہشت گردی کا واقعہ ایک برا حادثہ تھا، لیکن ہر فریق کو اپنے علاقوں کی سکیورٹی کی ذمہ داری ادا کرنی چاہیے اور مسائل کا رخ موڑنے کی بجائے حقیقی تعاون کی فضا قائم کرنی چاہیے۔‘

 انہوں نے پاکستانی فریق کو یقین دلایا کہ افغان حکومت کسی کو اپنی سرزمین کے غلط استعمال کی اجازت نہ دینے کے لیے پرعزم ہے اور وہ دوسروں سے بھی یہی چاہتی ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں ہونے والے اس حملے میں پانچ چینی انجینیئروں اور ایک پاکستانی ڈرائیور کی موت کے بعد پاور چائنا اور چائنا گیزوبا کمپنیوں نے داسو اور دیامر بھاشا ڈیم منصوبوں پر کام روک دیا تھا۔ بعدازاں پاور چائنا نے کام دوبارہ شروع کردیا تھا۔

دونوں منصوبوں پر سینکڑوں چینی شہری کام کر رہے ہیں۔ یہ منصوبے پہاڑی علاقے میں تقریباً 100 کلومیٹر (62 میل) کے فاصلے پر جاری ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا