صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع اپر کوہستان کے ہیڈکوارٹر داسو میں اتوار (16 اپریل) کو توہین مذہب کے الزام میں ایک چینی شہری کو عوامی مطالبے پر گرفتار کرلیا گیا۔
دوسری جانب علما نے مساجد سے اعلانات کرکے لوگوں کو پرامن رہنے کی تاکید کرتے ہوئے اس معاملے کو قانون کے سپرد کرنے اور قانون کے فیصلے کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے۔
تھانہ داسو کی جانب سے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ شیئر کی گئی ایف آئی آر میں چینی شہری کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعات درج کی گئی ہیں۔
ایف آئی آر کی تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ اتوار کو ظہر کے وقت پیش آیا، جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ داسو ڈیم پراجیکٹ کے مقام پر ایک چینی افسر نے ایک مقامی ملازم سے مخاطب ہوتے ہوئے گستاخانہ کلمات ادا کیے، جس پر وہاں موجود کچھ لوگوں نے گواہی دیتے ہوئے علاقہ مکینوں کو اطلاع دی، جس کے بعد سینکڑوں مشتعل افراد نے جائے وقوعہ کا گھیراؤ کیا۔
تھانہ داسو کے سٹیشن ہیڈ آفیسر (ایس ایچ او) نصیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ گرفتاری کے بعد ملزم کو بذریعہ ہوائی جہاز ایبٹ آباد لے جانے کا بندوبست کیا جا رہا ہے، جہاں انہیں انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
ایس ایچ او نے بتایا کہ پیر کی صبح سے پولیس مشتعل عوام اور علما سے بات چیت میں مصروف ہے، جبکہ صورت حال پوری طرح قابو میں ہے۔
داسو کے مقامی افراد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آج کوہستان بالا کی ایک مسجد میں گواہوں کو پیش کیا جا رہا ہے، جس کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
کوہستان بالا کے ایک مقامی رپورٹر اجمل جدون نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کوہستان کی تاریخ میں اس سے قبل اتنا شدید احتجاج اور مذمت دیکھنے میں نہیں آئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقامی افراد سے ملنے والی دیگر تفصیلات کے مطابق واقعے کے بعد شاہراہ قراقرم کو بھی بند کیا گیا اور پراجیکٹ کے مقام پر کیمپوں کا بھی گھیراؤ کیا گیا، جس کے بعد سیکیورٹی اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ کی۔ اس صورت حال کے نتیجے میں پولیس بھاری نفری کے ساتھ متعلقہ جگہ پر پہنچ گئی اور تمام غیر ملکیوں کو اندر رہنے کی ہدات کی۔
مظاہرین کی قیادت کرنے والے مولانا عبدالعزیز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے تمام مشتعل افراد کو پرامن رہنے کی تاکید کی ہے، جنہوں نے ان کی بات مان کر تمام معاملہ آئین اور قانون پر چھوڑ دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بحیثیت ایک مذہبی لیڈر ان کا یہ فرض ہے کہ معاملے کی پوری جانچ پڑتال اور تحقیق کے بغیر کسی کو بھی مشتعل ہونے کی اجازت نہ دیں۔
مولانا عبدالعزیز نے مزید کہا: ’جس طرح توہین مذہب پر سزا ہے اسی طرح کسی پر ناحق الزام لگانے والوں کے لیے بھی سزا ہے، اس لیے تحقیق ضروری ہے اور جو لوگ ناحق اشتعال انگیزی کے حالات پیدا کرتے ہیں، ان کی بھی تحقیق ضروری ہے۔ ہماری چینی عملے، گواہان اور پولیس کے ساتھ میٹنگ جاری ہے۔ عدالت سے جو بھی فیصلہ آئے گا، ہمیں من وعن قبول ہوگا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’چونکہ ملزم غیر مسلم ہیں اور انہیں ہمارے دین کی حساسیت اور تقدس کا احساس نہیں ہے، اس لیے آج جرگے کے ذریعے عوام الناس اور علاقے میں کام کرنے والی چینی کمیونٹی کو ایک جامع پیغام بھی دیا جائے گا تاکہ آئندہ ایسے حالات نہ بنیں۔‘
مولانا عبدالعزیز کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ یہ ایک الزام تھا اور ابھی معاملے کی پوری تحقیق سامنے نہیں آئی تھی، لہذا چینی شہری کی گرفتاری سے ان کی حفاظت کرنا بھی مقصود تھا۔