بی جے پی کو 350، اپوزیشن اتحاد کو 120 نشسیں ملنے کا امکان: انڈین ایگزٹ پول

انڈیا میں پولنگ کا آخری مرحلہ مکمل۔ چار جون کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کے بعد نتائج کا اعلان متوقع۔

انڈین نیوز چینل این ڈی ٹی وی کے ایگزٹ پول کی سمری میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی زیر قیادت اتحاد کو ہفتے کے روز ختم ہونے والے عام انتخابات میں اکثریت حاصل ہونے کا امکان ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دو ایگزٹ پولز کی سمری میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ حکمران اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) پارلیمنٹ کے 543 رکنی ایوان زیریں میں 350 سے زیادہ نشستیں جیت سکتا ہے، جہاں سادہ اکثریت کے لیے 272 نشستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

این ڈی اے نے 2019 کے انتخابات میں 353  نشستیں حاصل کی تھیں۔ کانگریس پارٹی کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ کو 120 نشستیں ملنے کی توقع ہے۔

انڈیا میں ایگزٹ پولز کا ریکارڈ خراب رہا ہے کیوں کہ ان کے اکثر انتخابی نتائج غلط ہوتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس بڑے اور متنوع ملک میں درست اندازہ لگانا چیلنج ہے۔

19 اپریل کو شروع ہونے والے سات مرحلوں پر مشتمل انتخابات میں تقریباً ایک ارب افراد ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔ ملک کے کئی حصوں میں شدید گرمی میں ووٹ ڈالے گئے۔

الیکشن کمیشن چار جون کو الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کرے گا اور اسی دن نتائج متوقع ہیں۔

73 سالہ مودی کی جیت سے وہ آزادی پسند رہنما جواہر لال نہرو کے بعد مسلسل تین مرتبہ وزیر اعظم بننے والے دوسرے وزیر اعظم بن جائیں گے۔

اے ایف پی کے مطابق الیکشن کے آخری مرحلے میں ہندوؤں کے مقدس شہر بنارس میں ووٹروں نے شدید گرمی کا سامنا کرتے ہوئے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔

اگرچہ تاریخی طور پر ایگزٹ پول 97 کروڑ کے لگ بھگ اہل ووٹروں کے ساتھ انتخابات میں ووٹروں کی سوچ میں تبدیلی کا احاطہ کرنا مشکل ہے لیکن توقع کی جارہی ہے کہ ان پولز کی بنیاد پر ہفتے کی رات کو کچھ ابتدائی اشارے مل جائیں گے کہ آیا مودی کو کامیابی ملی ہے یا نہیں۔

وزیر اعظم کے حلقہ انتخاب بنارس شہر میں بہت سے لوگ ان کی کامیابی چاہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر مقامی رہائشی برجیش ٹکسالی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’میں نے اپنے ملک کی ترقی اور ترقی کے لیے ووٹ دیا۔ ’صرف ایک لیڈر ہے جسے میں جانتا ہوں۔ نریندر مودی۔ میں نے انہیں ووٹ دیا۔‘

بنارس میں کڑھائی کی مشہور دکان پر کام کرنے والے 44 سالہ جانثار اختر کا کہنا تھا کہ ’بی جے پی کی فرقہ وارانہ مہم انڈیا کے دیرینہ بے روزگاری کے مسائل سے توجہ ہٹانے کا ایک افسوس ناک حربہ ہے۔

’یہاں ورک شاپس بند ہو رہی ہیں اور مودی حکومت مندروں اور مساجد کی سیاست میں مصروف ہے۔ انہیں چاہیے کہ ہمیں ملازمتیں دیں، کشیدگی نہیں۔‘

تجزیہ کاروں کو طویل عرصے سے توقع ہے کہ مودی حزب اختلاف کے اتحاد پر فتح حاصل کریں گے، جس نے وزارت عظمیٰ  کے لیے متفقہ امیدوار کا کبھی اعلان نہیں کیا۔

انڈیا میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کے بینک اکاؤنٹ ٹیکس چوری کی تحقیقات کی وجہ سے منجمد کر دیے گئے جب کہ مودی کے سیاسی مخالفین کے خلاف کئی جرائم کی تحقیقات جاری ہے۔

ان حالات میں مودی کی کامیابی کے امکانات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا