دنیا بھر میں پراسرار دیوہیکل سانپ کی ہزاروں سال پرانی تصاویر کا معمہ

ماہرین آثار قدیمہ نے قدیم آرٹ کی دنیا کے سب سے بڑے مجموعوں میں سے ایک دریافت کیا ہے جس میں دیوقامت اور خونخوار درندوں کو زمین پر چلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

سانپ کی یہ 43 میٹر لمبی کندہ کاری یقینی طور پر مذہبی اہمیت کی حامل، قبل از تاریخ آرٹ کی سب سے بڑی مثالوں میں سے ایک ہے (فلپ رائرس)

ماہرین آثار قدیمہ نے قدیم آرٹ کی دنیا کے سب سے بڑے مجموعوں میں سے ایک دریافت کیا ہے جس میں دیوقامت اور خونخوار درندوں کو زمین پر چلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

جنوبی امریکہ کے ایک دور دراز علاقے میں برطانوی تحقیقی ٹیم نے ایک ہزار سے زیادہ قبل از تاریخ کی نقاشی دریافت کی ہے، جس میں قبل از تاریخ کے راک آرٹ کی دنیا کے سب سے بڑے فن پارے بھی شامل ہیں۔ تاہم ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ اب تک جو فن پارے ملے ہیں قدیم فن کے چھپے خزانوں میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور یہ کہ اب بھی بہت ساری دریافتیں ہونا باقی ہیں۔

یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہزار مربع میل کے رقبے میں تقریباً 10 ہزار قدیم فن پارے ہو سکتے ہیں۔ اب تک دریافت ہونے والا سب سے بڑا سانپ کا خاکہ 43 میٹر طویل ہے۔ دیگر تصاویر میں دیوہیکل سینٹی پیڈز (حشرات)، دیگر بڑے جانوروں اور 10 میٹر لمبے انسانوں کی طرح نظر آنے والی مخلوق کے خاکے ہیں۔

یہ آرٹ کولمبیا اور وینزویلا کی سرحد کے ساتھ دریافت ہوئے ہیں جن میں سٹنگ رے اور گدھوں، بندروں اور مگرمچھوں، کتوں اور تیندوؤں سے لے کر کچھوے اور مینڈکوں تک سب کچھ شامل ہے۔

یہاں بڑی تعداد میں ہندسی نقاشی (بنیادی طور پر دائرے، گرڈ پیٹرن اور نقطوں سے بھرے مثلث) بھی ہیں جن کے بارے میں اب تک معلوم نہیں کہ یہ کن اشیا کی نمائندگی کرتے ہیں۔

یہ دنیا میں راک آرٹ کے سب سے بڑے خزانے میں سے ایک ہے، حجم کے لحاظ سے یہ فرانسیسی ڈورڈوگنے علاقہ، جو الپائن شمالی اٹلی، مغربی آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ جیسے خطوں کا مقابلہ کرتا ہے۔

لیکن اب تک کندہ کاری کا سب سے غیر معمولی پہلو ان میں سے کچھ کی انفرادیت یادگار نوعیت کی ہے۔ اب تک دریافت ہونے والے ایک ہزار میں سے تقریباً 60 تصاویر 10 میٹر سے زیادہ طویل ہیں۔ 43 میٹر کے سانپ کے ساتھ ساتھ ان میں دو 10 میٹر لمبے انسان نما مخلوق کے خاکے بھی شامل ہیں (جو روحیں، دیوتا یا ممکنہ طور پر روحانی شخصیات ہو سکتی ہیں)۔ ایک 11 میٹر لمبا سینٹی پیڈ اور جو ممکنہ طور پر چار میٹر لمبا بڑا کیڑا (ممکنہ طور پر تتلی) ہے۔

پروجیکٹ میں شامل بورن ماؤتھ یونیورسٹی کے شعبہ آثار قدیمہ کے ڈاکٹر فلپ ریرس نے کہا: ’کولمبیا اور وینزویلا میں ہماری فیلڈ ریسرچ پہلی بار جنوبی امریکہ کے اس دور دراز حصے میں پہلے سے بڑے پیمانے پر نامعلوم اور غیر ریکارڈ شدہ قدیم ثقافت کو ظاہر کر رہی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’ہم امید کرتے ہیں کہ اس سے جدید دنیا ان لوگوں کی طویل عرصے سے کھوئی ہوئی فنکارانہ اور دیگر کامیابیوں کو سراہنے میں مدد ملے دے گی جو یورپی نوآبادیات سے کئی صدیاں پہلے وہاں مقیم تھے۔‘

دیو ہیکل سانپ (ان میں سے سات، جن کی لمبائی 16 سے 43 میٹر کے درمیان ہے) خاص طور پر اہم ہیں کیونکہ یہ ایک وسیع تر میگا سیرپینٹ ٹریڈیشن (بڑے سانپوں کی پوجا کی روایت) کا حصہ ہو سکتے ہیں۔

کئی سالوں کے دوران متعدد سکالرز کی جانب سے شائع ہونے والی تعلیمی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جانوروں سے متعلق دیگر مذہبی عقائد کے برعکس سانپ کی پوجا، جسے ماہرین بشریات اوفیولٹری کے نام سے جانتے ہیں، ایک زمانے میں دنیا بھر میں ایک بڑا رجحان تھا۔ یہ دنیا کے تقریباً ہر حصے میں مذہبوں اور افسانوں میں نمایاں تھے (اور بعض صورتوں میں اب بھی موجود ہیں) قبل از تاریخ یورپ اور قدیم مصر سے لے کر ابیوریجنل آسٹریلیا اور قدیم امریکہ تک۔

قدیمی مشرق وسطیٰ، یورپی، میکسیکن، افریقی، چینی، جاپانی اور ہندوستانی افسانوں کی طرح کلاسیکی یونانی افسانے ان مافوق الفطرت سانپوں اور دیگر مخلوقات سے بھرے پڑے ہیں۔

لافانیت اور بیماری کے علاج کے ساتھ ان سانپوں کو اکثر انسانوں یا مخصوص قبیلوں کا خالق سمجھا جاتا تھا۔ یہ مختلف ثقافتوں پر منحصر ہے کہ وہ انہیں خیر خواہ یا برائی (یا دونوں ہونے کے قابل) کے طور پر شمار کرتے تھے اور بعض اوقات انہیں بادشاہت کی علامت کے طور پر بھی دیکھا جاتا تھا۔

سانپوں کے افسانوں اور مذہبی آئیکنوگرافی کی غیر معمولی طور پر وسیع عالمی موجودگی کے لیے یہ واقعہ انتہائی قدیم ہے اور یہ کہ دنیا بھر میں انسانوں نے ممکنہ طور پر دسیوں ہزار سالوں سے سانپوں کو خاص طور پر خوش کرنے اور ان کی تعظیم کرنے پر مجبور محسوس کیا ہے۔

یہ تقریباً یقینی بات ہے کیونکہ سانپ انسانوں کے لیے کسی بھی دوسرے جانور (بیماری پھیلانے والے کیڑوں کے علاوہ) کے مقابلے میں زیادہ خطرہ ہیں (اور اب بھی ان سے خطرہ لاحق رہتا ہے)۔

آج بھی زہریلے سانپوں کے کاٹنے سے ہر سال تقریباً 20 ہزار لوگ مر جاتے ہیں (اس کے مقابلے میں ہر سال صرف 100 لوگ شیروں کے حملوں سے اور 500 مگرمچھوں کے حملوں میں مارے جاتے ہیں)۔ مزید یہ کہ ہر سال مزید چار لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں کو سانپ کاٹتے ہیں اور وہ ان کے زہر کا شکار بن جاتے ہیں اگرچہ وہ مرتے نہیں۔

قدیم زمانے میں، جب انسان قدرتی ماحول کے بہت قریب رہتے تھے (اور مسلسل شکار کرتے اور اس ماحول میں اکٹھے ہوتے تھے)، سانپ تقریباً یقینی طور پر انسانیت کے لیے ایک اور بھی بڑا خطرہ تھے، ایک ایسا خطرہ جسے مطمئن کرنے کی ضرورت تھی اور اس لیے اس کی پوجا، تعظیم اور پرستش کی جاتی تھی۔

کولمبیا اور وینزویلا میں نئی دریافت ان خاکوں کی طرح، دیگر قدیم ثقافتوں میں اکثر ناگ دیوتاؤں یا روحوں کو بڑی یادگار مخلوق کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ کیلیفورنیا، اوہائیو، پیرو اور دیگر جگہوں پر حقیقی معنوں میں بڑے بڑے سانپوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ سب سے بڑا 900 سال پرانا 411 میٹر لمبا ارتھ ورک ہے جو ایک دیو ہیکل سانپ کی نمائندگی کرتا ہے اور جسے اب بھی جنوبی اوہائیو میں ایک پہاڑی کی چوٹی پر دیکھا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ دنیا میں آؤٹ ڈور قبل از تاریخ کے آرٹ کی سب سے مشکل رسائی والے مقام میں سے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قبل از تاریخ کے فنکار جنہوں نے انہیں کندہ کیا تھا وہ اکثر قریب کے عمودی چٹانوں پر بہت اونچائی پر کام کرتے تھے۔ یہ مشکل، کھٹن اور خطرناک کام تھا۔

مثال کے طور پر 43 میٹر لمبا دیوہیکل سانپ 200 میٹر اونچی چٹان کے تین چوتھائی راستے پر واقع ہے۔ کچھ شواہد بتاتے ہیں کہ قدیم زمانے میں یہ ایک قسمت کا حال بتانے والے کے طور پر کام کرتا تھا، روحوں سے بات کرنے والے یا ترجمانی کرنے والوں (جیسا کہ اوریکلز دنیا کے دیگر حصوں میں کام کرتے تھے، بشمول قدیم یونان اور قدیم مصر) کے ذریعے سانپ مقامی آبادی سے بات کر سکتے تھے۔

آثار قدیمہ کی ٹیم کی جانب سے اب تک دریافت ہونے والی ایک ہزار نقش کاری دریائے اورینوکو کے 110 میل کے فاصلے پر 157 کلسٹرز میں واقع ہے۔ اس خطے میں پہنچنے والے پہلے یورپی مہم جو سولہویں صدی کے جرمن اور انگلستان سے تعلق رکھنے والے خزانے کے متلاشی تھے، جو ایل ڈوراڈو کے فرضی سونے کی تلاش کر رہے تھے۔ ان مہم جوؤں (بشمول انگلینڈ کے سر والٹر ریلی) کو کبھی بھی یہ افسانوی شہر یا سونا نہیں ملا۔ لیکن اب جدید دور کے مہم جو ایک آثار قدیمہ کے خزانے کو دریافت کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ دیوہیکل فن پارے ہیں جو ایک قابل ذکر طویل گمشدہ قدیم ثقافت کے بارے میں علمی دنیا کی فہم کو تبدیل کرنے میں مدد کریں گے۔

جیسا کہ ڈاکٹر فلپ ریرس نے کہا کہ ’ہم امید کرتے ہیں کہ ہمارا تحقیقی کام اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کرے گا کہ اورینوکو وادی کے غیر معمولی فنی ورثے کو محفوظ کیا جائے اور مقامی اور مخلوط ورثے کی کمیونٹیز اس عمل میں شامل ہوں۔‘

نئے ریکارڈ شدہ اور عالمی سطح پر اہم اورینوکو راک آرٹ کو بیان کرنے کے لیے مکمل طور پر وقف کردہ ایک اہم مقالہ منگل کو شائع کیا جا رہا ہے جسے اورینوکو پروجیکٹ کے تین اہم ماہرین آثار قدیمہ بورنی ماؤتھ یونیورسٹی کے فلپ ریرس، یونیورسٹی کالج لندن کے جوز رامون اولیور اور نتالیہ لوزاڈا بوگوٹا، کولمبیا میں اینڈیس یونیورسٹی کی مینڈیٹا نے تحریر کیا ہے۔ برطانوی آرکیالوجیکل جریدے Antiquity کی جانب سے شائع کیا گیا یہ مطالعہ مفت آن لائن دستیاب ہوگا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ