انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کو اپنے اتحادی کی جیت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ ’عوام نے ان پر تیسری مرتبہ اعتماد‘ کیا ہے۔
نریندر مودی نے ایکس پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’لوگوں نے ان کے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس پر تیسری مرتبہ اعتماد کیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ہم وہ تمام اچھے کام جاری رکھیں گے جو گذشتہ دس سالوں کے دوران کیے گئے تاکہ ان کی (عوام) امیدیں پوری کرتے رہیں۔‘
بعد میں نریندر مودی نے نئی دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے کارکنان سے خطاب کیا اور کہا کہ ’انڈیا ہماری تیسری مدت میں بری فیصلوں کا نیا باب رقم کرے گا۔‘
انڈیا میں عام انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی منگل کو جاری ہے اور ابتدائی نتائج سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے اتحاد کو اکثریت تو حاصل ہے لیکن ایگزٹ پولز میں پیش گوئی کی گئی لینڈ سلائیڈ کامیابی کے مقابلے میں یہ تعداد بہت کم ہوسکتی ہے۔
ابتدائی نتائج یہ بھی ظاہر کر رہے ہیں راہل گاندھی کی کانگریس پارٹی کی قیادت میں اپوزیشن انڈیا اتحاد 200 سے زائد نشستوں پر آگے ہے۔ گذشتہ عام انتخابات کے مقابلے میں راہل گاندھی کی قیادت میں اتحاد کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کانگریس کے ترجمان پون کھیرا نے کہا، ’یہ بہت ابتدائی رجحانات ہیں، ہم دن گزرنے کے ساتھ ساتھ بہتر نتائج کی توقع کر رہے ہیں۔‘
یکم جون کو ووٹنگ ختم ہونے کے بعد نشر ہونے والے ٹی وی ایگزٹ پولز نے مودی کی بڑی جیت کا اندازہ لگایا تھا لیکن ابتدائی نتائج نے ان میں سے اکثر اندازوں کو غلط ثابت کیا ہے۔
ووٹرز نے بی جے پی کو ’سزا‘ دی: راہل گاندھی
انڈین کانگریس رہنما راہل گاندھی نے منگل کو کہا کہ انڈیا کے عام انتخابات میں ووٹرز نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران جماعت بی جے پی کو کم ووٹ دے کر ’سزا’ دی ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انہوں نے میڈیا نمائندگان سے گفتگو میں کہا کہ ’مجھے یقین تھا کہ اس ملک کے لوگ درست جواب دیں گے۔‘
انڈیا کے الیکشن کمیشن کے مطابق راہل گاندھی انڈیا کی پارلیمان میں واپس قدم رکھیں گے۔ اس بار انہوں نے دو سیٹوں کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا۔
ملک کے شمال میں رائے بریلی کی سیٹ پر ان کو تین لاکھ 89 ہزار ووٹ سے برتری ملی۔
بی جے پی 38 فیصد سے زائد ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر
بھارت کے قومی الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) 38.68 فیصد ووٹوں کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کمیشن کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں کم از کم 290 نشستوں پر آگے ہیں، جو ایوان زیریں میں پارلیمانی اکثریت کے لیے درکار 272 نشستوں سے زیادہ ہیں، لیکن گذشتہ انتخابات کے بعد ان کی مشترکہ تعداد 353 سے کم ہے۔
کانگریس رہنما راہل گاندھی نے رائے بریلی سیٹ پر چار لاکھ ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کی ہے۔ وائناڈ میں بھی کانگریس کے رہنما آگے ہیں۔ بی جے پی کی رہنما اور سابق اداکارہ سمرتی ایرانی فی الحال امیٹھی میں پیچھے ہیں۔
ترنمول کانگریس کے امیدوار یوسف پٹھان مغربی بنگال کے بہرام پور سیٹ سے 31 ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے آگے ہیں۔ 17 ویں لوک سبھا میں انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما چودھری 1999 سے اس حلقے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
اڈانی کے شیئر میں بڑی گراوٹ
انڈین ارب پتی گوتم اڈانی کی کمپنی کے حصص کی قیمت میں منگل کو اس وقت 25 فیصد کمی واقع ہوئی جب عام انتخابات میں جاری ووٹوں کی گنتی سے پتہ چلتا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی پارٹی کو کم اکثریت ملی ہے۔
اڈانی کو ہندو قوم پرست مودی کا دیرینہ قریبی ساتھی سمجھا جاتا ہے اور دونوں کا تعلق ریاست گجرات سے ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں اور دیگر ناقدین نے اڈانی پر غیر منصفانہ طور پر کاروباری فائدہ کے سلسلے میں مناسب نگرانی سے بچنے کے لیے مودی سے تعلقات سے فائدہ اٹھانے کا الزام لگایا تھا۔
خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اڈانی انٹرپرائزز دوپہر کے بعد 32.72 ڈالر (2,733 انڈین جبکہ تقریبا 9000 پاکستانی روپے) فی حصص پر ٹریڈ کر رہا تھا، جو منگل کے اوپن سے 9.05 ڈالر کم ہے۔
یہ ممبئی سٹاک ایکسچینج میں سب سے بڑا منفی رجحان تھا جس میں سہ پہر کے کاروبار تک سینسیکس بینچ مارک میں سات فیصد سے زیادہ کی گراوٹ آئی۔
ایگزٹ پولز کے مطابق 73 سالہ نریندر مودی چھ ہفتوں تک جاری رہنے والے انتخابات کے بعد کامیابی کی راہ پر گامزن ہیں جس میں دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں سات مرحلوں میں 64 کروڑ 20 لاکھ افراد نے ووٹ ڈالے۔
مودی نے ہفتے کے اختتام پر کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ انڈیا کے عوام نے ان کی حکومت کو دوبارہ منتخب کرنے کے لیے ریکارڈ تعداد میں ووٹ دیا ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ ان کی جانب سے ہندو قوم پرست جذبات ابھارنے کی کوششیں انہیں تیسری مدت کے لیے اقتدار میں آنے کا موقع دیں گی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور انڈین نیشنل کانگریس (آئی این سی) کے حامی دہلی میں اپنی اپنی جماعت کے ہیڈ کوارٹرز کے باہر جیت کی امید میں جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
انڈیا کے الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر سہ پہر ساڑھے چار بجے تک کے نتائج کا احوال یہ ہے:
امریکی تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس نے رواں سال کہا تھا کہ بی جے پی نے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے سرکاری اداروں کو زیادہ استعمال کیا ہے۔
اتوار کو دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال، جو مودی کے خلاف مقابلہ کرنے کے لیے بنائے گئے اتحاد کے ایک اہم رہنما ہیں، جیل واپس پہنچ گئے۔
55 سالہ کجریوال کو طویل عرصے سے جاری بدعنوانی کی تحقیقات کے سلسلے میں مارچ میں حراست میں لیا گیا تھا، لیکن بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا تھا اور ووٹنگ ختم ہونے کے بعد حراست میں واپس آنے تک انہیں انتخابی مہم چلانے کی اجازت دی گئی تھی۔
انتخابات سے قبل 20 کروڑ سے زائد مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ اپنے مستقبل اور آئینی طور پر سیکولر ملک میں اپنی برادری کے مقام کے بارے میں بے چینی کا شکار ہو گئے ہیں۔
مودی نے خود انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے بارے میں کئی سخت تبصرے کیے اور انہیں ’درانداز‘ قرار دیا۔
انڈیا کے بازار حصص میں کمی کا رجحان
ووٹوں کی گنتی کے دوران ابتدائی نتائج کے بعد انڈیا کے بازار حصص میں کمی کا رجحان دیکھا گیا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ابتدائی نتائج میں اگرچہ وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والے اتحاد کو اکثریت حاصل ہونے کے امکانات ہیں لیکن ان کی بھاری اکثریت واضح نہیں۔
ایگزٹ پولز میں یہ پیش گوئی کی گئی تھی کہ بی جے پی کی قیادت والے اتحاد کو ایوان زیریں میں دو تہائی اکثریت حاصل ہونے کا امکان ہے تاہم ابتدائی نتائج کے مطابق ایسا نہیں ہے۔
انڈین پارلیمنٹ کے 543 رکنی ایوان زیریں میں سادہ اکثریت کے لیے کم از کم 272 نشستیں درکار ہیں۔
گنتی کا عمل
یہ انتخابات ان کے حجم اور لاجسٹک پیچیدگی کے لحاظ سے حیران کن تھے، جس میں رائے دہندگان نے بڑے شہروں نئی دہلی اور ممبئی کے ساتھ ساتھ کم آبادی والے جنگلاتی علاقوں اور کشمیر جیسے پہاڑی علاقے میں اپنا ووٹ ڈالا۔
انڈین لوک سبھا انتخابات 2024 کے لیے میدان میں اترنے والے 8000 سے زیادہ امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ آج مغربی بنگال اور آندھرا پردیش جیسی ریاستوں میں سخت سکیورٹی میں ووٹوں کی گنتی سے ہونے والا ہے۔
ووٹوں کی گنتی کی تیاریوں کے بارے میں چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار نے کہا کہ ’ایک بہت مضبوط نظام موجود ہے۔ تقریبا ساڑھے دس لاکھ پولنگ بوتھ پر مبصرین اور مائیکرو مبصرین کی موجودگی میں تقریبا 70-80 لاکھ افراد اس عمل میں شامل ہیں۔‘
انڈین الیکشن کمیشن کے مطابق اس نے کئی ریاستوں میں سکیورٹی کی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد نتائج کے اعلان کے بعد کسی بھی تشدد کو روکنے کے لیے مرکزی فورسز فراہم کر دی ہیں۔
آندھرا پردیش اور مغربی بنگال کو ووٹوں کی گنتی کے بعد 15 دن کے لیے اضافی سکیورٹی فورسز تفویض کی گئی ہیں۔ اتر پردیش، اوڈیشہ، سکم، اروناچل پردیش کو ووٹوں کی گنتی کے بعد دو دن کے لیے سکیورٹی فورسز دی گئی ہیں۔
اروناچل پردیش اور سکم
برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور سکم کرانتی کاری مورچہ (ایس کے ایم) نے دو جون کو اروناچل پردیش اور سکم میں بالترتیب تیسری اور دوسری بار اقتدار برقرار رکھنے کے لیے کامیابی حاصل کی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بی جے پی نے اروناچل پردیش اسمبلی کی 60 میں سے 46 نشستیں حاصل کیں۔ پارٹی نے 19 اپریل کو ہونے والے انتخابات میں 10 نشستوں پر بلا مقابلہ کامیابی حاصل کی تھی کیونکہ مکتو حلقہ میں وزیر اعلی پیما کھانڈو، چوکھم میں ان کے نائب چونا مین اور آٹھ دیگر کے خلاف کسی اور پارٹی نے اپنا امیدوار نہیں کھڑا کیا تھا۔
سکم میں ایس کے ایم نے ریاستی اسمبلی کی 32 میں سے 31 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ وزیر اعلی پریم سنگھ تمنگ نے ان میں سے دو – رینوک اور سورینگ-چاکنگ پر کامیابی حاصل کی۔ سکم ڈیموکریٹک فرنٹ (ایس ڈی ایف) کے واحد فاتح ٹینزنگ نوربو لمتھا نے اسمبلی انتخابات سے قبل ٹکٹ نہ ملنے پر ایس کے ایم چھوڑ دیا تھا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان نتائج نے ایک رجحان ظاہر کیا ہے کہ ریاست اور مرکز میں حکمرانی کرنے والی پارٹی عام طور پر اروناچل پردیش میں انتخابات جیتتی ہے۔
اگرچہ بی جے پی کو حکومت مخالف لہر کا سامنا نہیں کرنا پڑا، لیکن وہ نچلی سطح پر بھی بہتر طور پر منظم تھی اور اسے شاید ہی کسی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
ریاست میں 30 سال سے زیادہ عرصے تک حکومت کرنے والی کانگریس 34 میں سے صرف 19 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑا کرنے میں کامیاب رہی۔
نیشنل پیپلز پارٹی (این پی پی) نے 20 سیٹوں پر انتخاب لڑا تھا جو بی جے پی کی جانب سے 60 سیٹوں کے بعد سب سے زیادہ سیٹوں پر لڑی گئی تھی۔
سب سے زیادہ بڑی ہار برداشت کرنے والوں میں 77 سالہ گیگونگ اپانگ بھی شامل تھے، جو 22 سال سے زیادہ عرصے سے اروناچل پردیش کے وزیر اعلیٰ رہے تھے۔
انہوں نے اپنے سیاسی کیریئر کو بحال کرنے کے لیے انتخابات سے پہلے اروناچل ڈیموکریٹک فرنٹ تشکیل دیا تھا۔