پاکستان سلامتی کونسل کا غیرمستقل رکن منتخب: شہباز شریف کی مبارکباد

وزیر اعظم شہباز شریف کے مطابق پاکستان کو 26-2025 کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن بننے کے لیے 182 ووٹ ملے۔

18 اپریل 2024 کی اس تصویر میں نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اجلاس کا منظر (اے ایف پی)

وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعرات کو 26-2025 کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا رکن منتخب ہونے کو پاکستان کے لیے اعزاز قرار دیا ہے۔

انہوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر بتایا کہ پاکستان کو 182 ووٹ ملے۔ شہباز شریف نے مزید کہا: ’اس نازک وقت میں اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی بھرپور حمایت کے ساتھ سلامتی کونسل میں ہمارا انتخاب عالمی برادری کے پاکستان کی سفارتی حیثیت اور عالمی امن و سلامتی کے لیے ہمارے عزم پر اعتماد کا ثبوت ہے۔

’ہم عالمی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔‘

شہباز شریف نے مزید کہا: ’ہم اقوام کے درمیان امن، استحکام اور تعاون کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔‘

آج اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 واں اجلاس میں سلامتی کونسل کے پانچ غیر مستقل ارکان کی نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے، جن میں پاکستان نے بھی حصہ لیا۔

ان نشتسوں پر پاکستان کے علاوہ ڈنمارک، یونان، پاناما اور صومالیہ میں مقابلہ تھا۔ پانچوں ملک اس سے قبل بھی کونسل میں خدمات انجام دے چکے ہیں۔

پاکستان سات بار، پاناما پانچ بار، ڈنمارک چار بار، یونان دو بار اور صومالیہ ایک بار سلامتی کونسل میں خدمات انجام دے چکا ہے۔

اس سال منتخب ہونے والے پانچ نئے ارکان یکم جنوری، 2025 کو اپنی نشستیں سنبھالیں گے اور 31 دسمبر، 2026 تک اپنی خدمات انجام دیں گے۔

وزیر خارجہ اور نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے ایکس پر پاکستان کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے ایکس پر لکھا: ’پاکستان جنگ کی روک تھام اور امن کے فروغ کے لیے اقوام متحدہ کے چارٹر کے وژن پر اپنے عزم کی پاسداری کا خواہاں ہے۔ عالمی خوشحالی کو فروغ دینا اور انسانی حقوق کے عالمی احترام کو فروغ دینا۔‘

’ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مینڈیٹ کے مطابق بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے موثر کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔‘

 

خطوں کے درمیان باقاعدہ تقسیم کے مطابق 2024 میں انتخابات کے لیے دستیاب پانچ نشستیں درج ذیل ہیں:

  • ۔ افریقی گروپ کے لیے ایک نشست (فی الحال موزمبیق کے پاس ہے)۔
  • ۔ ایشیا پیسیفک گروپ کے لیے ایک نشست (فی الحال جاپان کے پاس ہے)۔
  • ۔ ایک نشست لاطینی امریکی اور کیریبین گروپ (جی آر یو ایل اے سی، جو فی الحال ایکواڈور کے پاس ہے)۔
  • ۔ مغربی یورپی اور دیگر گروپ (ڈبلیو ای او جی) کے لیے دو نشستیں (جو اس وقت مالٹا اور سوئٹزرلینڈ کے پاس ہیں)۔
  • ۔ مشرقی یورپی گروپ اس سال کسی بھی نشست پر مقابلہ نہیں کر رہا، کیونکہ اس کی ایک نشست، جو اس وقت 2025 تک سلووینیا کے پاس ہے، اس پر ہر دو سال بعد انتخاب ہوتا ہے۔

افریقی گروپ

سلامتی کونسل میں تین غیر مستقل نشستیں ہمیشہ افریقی ممالک کے لیے مختص کی جاتی ہیں۔ ہر کیلنڈر سال کے دوران ایک نشست پر انتخابات ہوتے ہیں اور دو نشستوں پر طاق نمبروں والے سالوں میں الیکشن ہوتا ہے۔

افریقہ کی نشستوں کے انتخابات عام طور پر بلا مقابلہ ہوتے ہیں کیونکہ افریقی گروپ اپنے پانچ ذیلی علاقوں کو باری باری موقع دیتا ہے: شمالی، جنوبی، مشرقی، مغربی اور وسطی افریقہ۔

 اس سال صومالیہ افریقی نشست کے لیے بلا مقابلہ الیکشن لڑ رہا ہے ، جو مشرقی افریقہ کے ذیلی خطے کے لیے مخصوص ہے۔

ایشیا بحرالکاہل گروپ

ایشیا پیسفک گروپ کے لیے دو غیر مستقل نشستیں مختص کی گئی ہیں، جن میں سے ایک پر ہر سال الیکشن ہوتا ہے۔ اس سال پاکستان اس نشست کے لیے بلا مقابلہ مقابلہ انتخاب لڑ رہا ہے، جو اس وقت جاپان کے پاس ہے۔

جی آر یو ایل اے سی

لاطینی امریکہ اور کیریبین کے لیے دو غیر مستقل نشستیں مختص کی گئی ہیں، جن میں سے ایک پر 2007 کے بعد سے ہر سال انتخابات ہوتے ہیں۔ جی آر یو ایل اے سی نشست کے لیے امیدوار بلا مقابلہ انتخاب لڑ رہے ہیں، سوائے 2019 کے، جب سینٹ ونسینٹ اینڈ گریناڈائنز، جو جی آر یو ایل اے سی کے حمایت یافتہ امیدوار تھے، نے 185 ووٹوں کے ساتھ نشست جیتی، جب ایل سلواڈور نے سات جون کے انتخابات سے چند دن قبل اپنی امیدواری پیش کی اور صرف چھ ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس سال پاناما اس نشست کے لیے بلا مقابلہ انتخاب لڑ رہا ہے جو اس وقت ایکواڈور کے پاس ہے۔

ڈبلیو ای او جی نشستیں

کونسل میں دو نشستیں مغربی یورپ اور دیگر گروپ کے لیے مختص کی گئی ہیں۔ ان نشستوں پر کیلنڈر کے ہر اس سال انتخابات ہوتے ہیں، جو دو پر تقسیم ہو سکیں۔ 2024 میں ڈنمارک اور یونان ان نشستوں کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں، جو مالٹا اور سوئٹزرلینڈ کے پاس ہیں۔

انتخابی عمل

اقوام متحدہ کے دیگر اہم اداروں کی طرح سلامتی کونسل کے انتخابات میں بھی باضابطہ رائے شماری کی ضرورت ہوتی ہے، چاہے امیدواروں کو ان کے علاقائی گروپ کی  حمایت ہی کیوں نہ حاصل ہو۔

حتیٰ کہ اگر کوئی ملک بلا مقابلہ الیکشن لڑ رہا ہے تو بھی اسے کونسل میں نشست حاصل کرنے کے لیے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں موجود اور ووٹ دینے والے دو تہائی رکن ممالک کے ووٹ حاصل کرنے ہوں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اقوام متحدہ کے تمام 193 رکن ممالک موجود ہیں اور ووٹ ڈال رہے ہیں تو ایک نشست جیتنے کے لیے کم از کم 129 مثبت ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

اصولی طور پر بلا مقابلہ انتخاب لڑنے والی رکن ریاست پہلے مرحلے میں جنرل اسمبلی میں مطلوبہ ووٹ حاصل نہیں کرسکے تو اگلے مرحلے میں اسے ایک نیا امیدوار چیلنج کر سکتا ہے۔ یہ ممکن ہے، لیکن امکان انتہائی کم ہے۔

2025 میں ممکنہ کونسل کی صورت حال

توقع ہے کہ سلامتی کونسل میں سیاسی پولرائزیشن برقرار رہے گی اور 2025 میں کونسل کی حرکیات کو تشکیل دی سکتی ہے۔

اگرچہ بہت سے ایجنڈا آئٹم متنازع ہیں، جن میں جوہری عدم پھیلاؤ اور پابندیوں سے لے کر ڈیموکریٹک پیپلز رپبلک آف کوریا (ڈی پی آر کے)، میانمار اور شام جیسے ممالک کے حالات شامل ہیں ، فروری 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے اور اکتوبر 2023 میں اسرائیل – حماس تنازعے کے آغاز کے بعد سے گذشتہ ڈھائی سالوں میں کونسل کے ارکان کے مابین تناؤ بڑھا ہے۔

غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور مشرق وسطیٰ میں اس کے اثرات سلامتی کونسل کے لیے انتہائی تفرقہ انگیز مسائل رہے ہیں۔

یہ تناؤ 2025 میں بھی سلامتی کونسل کے ایجنڈے میں نمایاں طور پر شامل ہو سکتا ہے، جس کا انحصار غزہ کے تنازع اور اس کے بعد کے حالات پر ہے۔

امیدوار ممالک میں ڈنمارک، یونان اور پاناما کے اسرائیل کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں اور انہوں نے 27 اکتوبر 2023 کو جنرل اسمبلی کی قرارداد میں حصہ نہیں لیا تھا، جس میں غزہ میں انسانی بنیادوں پر فائر بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اگرچہ پاناما نے 12 دسمبر 2023 کو جنرل اسمبلی کی قرارداد میں بھی حصہ نہیں لیا جس میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر فائر بندی کا مطالبہ کیا گیا تھا، لیکن ڈنمارک اور یونان نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا، جس سے غزہ میں انسانی حالات خراب ہونے کے بعد اس حوالے سے بدلتے ہوئے موقف کا اشارہ ملتا ہے۔

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک پاکستان اور صومالیہ نے دونوں قراردادوں کے حق میں ووٹ دیا اور اسرائیل کے جنگی طرز عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

 حال ہی میں، تمام پانچ امیدوار ممالک نے 10 مئی کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جس میں فلسطینی ریاست کو نئے ’حقوق اور مراعات‘ دی گئیں اور سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اقوام متحدہ کی رکن ریاست بننے کی فلسطینی درخواست پر نظر ثانی کرے۔

امکان ہے کہ یوکرین کی صورت حال بھی اگلے سال کونسل کے ایجنڈے میں ایک اہم مسئلے کے طور پر رہے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آنے والے ارکان میں ڈنمارک، یونان اور پاناما نے جنگ سے متعلق جنرل اسمبلی کی چاروں قراردادوں کے حق میں ووٹ دیا ہے (مطالبہ کیا گیا ہے کہ روس یوکرین سے اپنی افواج واپس بلائے، ملک کے خلاف جارحیت کے انسانی نتائج کو تسلیم کرے، اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے روس کو معطل کرے اور روس کے مقبوضہ علاقوں کے مبینہ الحاق کی مذمت کرے)۔

پاکستان نے چاروں قراردادوں پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ صومالیہ نے پہلی اور چوتھی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور دوسری اور تیسری قرارداد سے غیر حاضر رہا۔

بہت سے آنے والے ارکان کونسل کے ایجنڈے میں شامل مسائل میں براہ راست دلچسپی رکھتے ہیں۔ یونان قبرص میں اقوام متحدہ کی امن فوج (یو این ایف آئی سی وائی پی) کے حوالے سے ایک اہم سٹیک ہولڈر ہے، جو یونانی اکثریتی جمہوریہ قبرص اور خود ساختہ ترک جمہوریہ شمالی قبرص کے درمیان اقوام متحدہ کے بفرزون میں گشت کرتی ہے۔

امکان ہے کہ پاکستان افغانستان کے معاملے میں فعال طور پر شامل ہو گا، جس کی سرزمین سے پاکستانی طالبان (تحریک طالبان پاکستان)، دولت اسلامیہ عراق و شام (داعش) اور القاعدہ نے پاکستان کے خلاف سرحد پار حملے کیے ہیں۔

صومالیہ اقوام متحدہ کے امدادی مشن (یو این ایس او ایم) اور صومالیہ میں اے یو ٹرانزیشن مشن (اے ٹی ایم آئی ایس) کی میزبانی کرتا ہے اور سلامتی کونسل کی 2713 کی پابندیوں کے تحت نامزد دہشت گرد گروہ الشباب کے خلاف فوجی مہم میں مصروف ہے، جو کہ کونسل کی 2713 پابندیوں کے نظام کے تحت نامزد ایک دہشت گرد گروپ ہے۔

اس کے علاوہ صومالیہ اور ایتھوپیا کے درمیان صومالی لینڈ کے حوالے سے بڑھتی ہوئی کشیدگی، جو ملک کے شمالی علاقے میں ایک خود ساختہ جمہوریہ ہے، جنوری میں کونسل کے ارکان کی مشاورت کا موضوع تھا۔

کئی امیدواروں کی ایک اور ترجیح امن قائم کرنا ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ میں سب سے زیادہ فوجی مشن بھیجنے والے ممالک میں سے ایک ہے اور امکان ہے کہ وہ کونسل کے رکن کی حیثیت سے اس معاملے پر فعال کردار ادا کرے گا۔

صومالیہ کا بھی میزبان ملک اور اے یو کی قیادت میں امن سپورٹ مشنز کے لیے اقوام متحدہ کی فنڈنگ کے حامی ہونے کے ناطے اس مسئلے میں حصہ ہے۔ یہ مسئلہ 21 دسمبر 2023 کی قرارداد 2719 میں حل کیا گیا ہے۔

اسی طرح  امکان ہے کہ ڈنمارک بھی الیکشن میں بہت زیادہ فعال ہو، اس نے سکیورٹی کے بدلتے ہوئے منظرنامے کے حوالے سے جدید ردعمل کو اپنی کونسل کی ترجیحات میں سے ایک قرار دیا ہے۔

توقع ہے کہ خواتین، امن اور سلامتی (ڈبلیو پی ایس) کو ایجنڈا 2025 میں کافی توجہ ملے گی، جو اس مسئلے پر پہلی موضوعاتی قرارداد 1325 کی 25 ویں سالگرہ منائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان