کانگریس کے رہنما اور اقوامِ متحدہ کے سابق انڈر سیکریٹری ششی تھرور نے 2004 میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پنڈت نہرو نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے کی امریکی پیشکش ٹھکرا دی تھی۔
کیا واقعی اس قسم کی کوئی پیشکش ہوئی تھی؟ اس کے کچھ شواہد دو اگست 1955 کو بھارت کے اس وقت کے وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو کے تمام وزرائے اعلیٰ کے نام ایک خط میں ملتے ہیں۔ نہرو نے لکھا تھا:
’امریکہ نے تجویز دی ہے کہ چین کو اقوامِ متحدہ کا رکن تو بنایا جائے مگر سلامتی کونسل کا نہیں، بلکہ اس کی جگہ بھارت اقوامِ متحدہ کا رکن بن جائے۔ ہم اسے قبول نہیں کر سکتے کیوں کہ اس کا مطلب چین کے ساتھ تنازع کھڑا کرنا ہو گا اور یہ چین جیسے عظیم ملک کے ساتھ زیادتی ہوگی کہ وہ سلامتی کونسل کا رکن نہ بنے۔ اس لیے ہم نے یہ تجویز پیش کرنے والوں پر واضح کر دیا ہے کہ ہم اس پر عمل نہیں کر سکتے۔ بلکہ ہم نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی کہا ہے کہ بھارت کو اس مرحلے پر سلامتی کونسل کو حصہ بننے کے لیے بےتابی نہیں ہے، حالانکہ بطور ایک عظیم ملک اسے سلامتی کونسل کا رکن ہونا چاہیے۔ پہلا مرحلہ یہ ہے کہ چین کو اس کا جائز حق ملے اور اس کے بعد بھارت کے معاملے پر الگ سے غور کیا جائے۔‘
ہندوستان کو گذشتہ روز اقوام متحدہ کی غیر مستقل رکنیت دے دی گئی جو کہ وہاں کے عوام کے لیے یقیناً ایک اچھی اور بڑی خبر ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ہندوستان اور پاکستان اس سے قبل سات سات بار غیر مستقل رکن کے طور پر سلامتی کونسل کا حصہ بن چکے ہیں جس کا اظہار پاکستان کے وزیر خارجہ قومی اسمبلی میں کچھ روز پہلے کر چکے ہیں کہ سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بننا کوئی اہم بات نہیں ہے۔
اہم بات مستقل رکن بننا ہے۔ تو کیا واقعی بھارت کو یہ پیشکش ہوئی تھی جو اس نے ٹھکرا دی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے تھوڑا سا پس منظرجاننا ضروری ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب اقوامِ متحدہ کا قیام عمل میں آیا تو اس سے بڑی امیدیں وابستہ کی گئیں کہ یہ آئندہ کسی بڑی جنگ کا راستہ روکنے میں مددگار ثابت ہو گا۔
اقوامِ متحدہ کے ماتحت مختلف اداروں میں سے ایک سلامتی کونسل ہے، جس کے پانچ مستقل رکن ہیں، امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس۔ اس کے علاوہ دس غیر مستقل رکن ہر دو سال کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں۔
مستقل رکن ممالک کی اس لحاظ سے بےحد اہمیت ہے کہ ان ملکوں کو ویٹو کا حق حاصل ہے اور ان میں سے کوئی بھی کسی بھی قرارداد کو صرف ایک ووٹ سے مسترد کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پانچوں ملکوں کے پاس بین الاقوامی سیاست اور سفارت کاری میں انتہائی اثر و رسوخ حاصل ہوتا ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی بھارت چین کے حق میں دست بردار ہو گیا؟
1979 میں نہرو سرویپالی گوپال نے نہرو کی سوانح لکھی جس میں ان پر تنقید کی گئی کہ نہرو نے ’بھارت نے سلامتی کونسل کے چھٹے مستقل رکن بننے کی سوویت پیشکش اس بنیاد پر رد کر دی کہ چین کی رکنیت کو اولیت دی جائے۔‘
جب چین میں 1949 میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو امریکہ کو یہ بات ایک آنکھ نہیں بھائی۔ ایک کمیونسٹ ملک یعنی سوویت یونین پہلے ہی سلامتی کونسل کا رکن تھا، اس لیے امریکہ کی خواہش تھی کہ ایک اور کمیونسٹ ملک یہ اہم نشست حاصل کر لے۔ یاد رہے کہ اس وقت چین اور سوویت یونین کے تعلقات بہت خوشگوار تھے جب کہ بھارت کے ابھی سوویت یونین سے تعلقات استوار نہیں ہوئے تھے۔
نہرو نے اگر امریکی پیشکش کو سنجیدگی سے نہیں لیا تو اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انہیں معلوم تھا کہ سوویت یونین کبھی بھی اس کی حمایت نہیں کرے گا اور اس قدم کو ویٹو کر دے گا، جس سے نہ صرف بھارت کو سفارتی سبکی اٹھانی پڑتی بلکہ اس کے پڑوسی چین کے ساتھ تعلقات بھی خراب ہو جاتے۔
یہی وجہ ہے کہ نہرو نے اس سلسلے میں زیادہ ہاتھ پاؤں نہیں مارے۔
تاریخ دان جی اے نورانی لکھتے ہیں کہ نہرو اس پیشکش کو رد کرنے میں اس لیے حق بجانب تھے کہ انہیں معلوم تھا کہ اس پر عمل ہونا مشکل ہے۔۔۔ ’اگر ایسا ہو جاتا تو اس سے بھارت کی خارجہ پالیسی بڑے مسائل کا شکار ہو جاتی اور اس کے چین اور دوسری بڑی طاقتوں کے ساتھ تعلقات پیچیدہ ہو جاتے۔‘
دوسری بار 1955 میں سوویت یونین نے مستقل رکن کے طور پر امریکہ کی طرح بھارت کو غیر رسمی پیشکش کی مگر دونوں مرتبہ بھارت نے اس معاملے پر انکار کر دیا۔
اس زمانے میں امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی اور سوویت یونین چاہتا تھا کہ بھارت اس کے بلاک میں آ جائے۔
امریکی اور روسی غیر رسمی پیشکشوں کو آگے بڑھانے کے لیے نہرو اس لیے آمادہ نہ ہوئے کیوں کہ بھارت اس وقت اپنے پڑوسی سے تعلق خراب نہیں کرنا چاہتا تھا، جو کہ آبادی اور طاقت کے اعتبار سے بھارت سے مضبوط تھا اور دوسری سوویت یونین کی پیشکش پر بھارت کی غیر وابستگی کی پالیسی بھی آڑے آئی، کیوں کہ اس وقت نہرو غیر وابستہ ممالک کی تحریک کو پروان چڑھانے کے لیے شد و مد سے کوشش کر رہے تھے۔
یہ بھی یاد رہے کہ چند سال قبل جب امریکی صدر براک اوباما نے بھارت کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے اس موقعے پر کہا تھا کہ امریکہ بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کے لیے کوشش کرے گا۔
آخر میں یہ بھی آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ پاکستان اور چین دونوں بھارت کی غیر رسمی رکنیت کے حوالے سے گذشتہ سال ہامی بھر چکے تھے مگر اج پاکستان نے اس ووٹنگ میں حصہ نہ لیا اور شاہ محمود قریشی نے اسبملی کے فلور پر ارکان کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان 2025 کا غیر مستقل رکن بننے کے لیے لابنگ شروع کر چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے اس ادارے کا حصہ بننا کوئی عام بات نہیں اس کے لیے حکمت کے ساتھ بہتر حکمت عملی بھی درکار ہے۔