کینسر کو کینسر کیوں کہا جاتا ہے؟ جواب یونانی اور رومن تاریخ میں پوشیدہ

قدیم یونانی اور رومن دور میں کینسر کو عام طور پر لاعلاج مرض سمجھا جاتا تھا جس سے لوگ اس قدر خوف زدہ تھے کہ وہ خودکشی کر کے موت کو گلے لگانا زیادہ آسان سمجھتے تھے۔

کینسر کا مرض کسی بھی عمر میں ہو سکتا ہے لیکن یہ بڑی عمر کے افراد میں زیادہ کثرت سے دیکھا گیا ہے (برین ٹیومر ریسرچ سینٹر)

دنیا میں سب سے پہلے کسی شخص میں کینسر کے مرض کا ذکر چوتھی صدی قبل مسیح میں سامنے آیا تھا۔ بحیرہ اسود کے قدیم یونانی شہر ہیراکلیا کے حکمران ستائرس میں پیٹ کے نچلے حصے اور سکروٹم (خصیہ دان) کے درمیان کینسر کی تشخیص ہوئی۔ جیسے جیسے کینسر پھیلتا گیا، ستائرس کو پہلے سے زیادہ تکلیف ہوئی۔ وہ شدید درد میں مبتلا تھے اور سو نہیں پا رہے تھے۔

سائنسی جریدے ’دا کنورسیشن‘ کی رپورٹ کے مطابق جسم کے اس حصے میں سرطان کو ناقابلِ علاج سمجھا جاتا تھا اور ایسی کوئی دوائیں نہیں تھیں، جو اس تکلیف کو کم کر سکتیں۔ اس لیے طبیب کچھ بھی کرنے سے قاصر تھے۔ بالآخر کینسر نے 65 سال کی عمر میں ستائرس کی جان لے لی۔

اس دور میں پہلے سے ہی لوگ کینسر کے بارے میں جانتے تھے۔ پانچویں صدی قبل مسیح کے اواخر یا چوتھی صدی قبل مسیح کے اوائل کے ایک متن میں اسے خواتین کی بیماری کہا گیا اور یہ بتایا گیا کہ چھاتی کا کینسر کیسے جنم لیتا ہے۔

اس دور کی دیگر طبی دستاویزات مختلف قسم کے کینسر کو بیان کرتی ہیں۔ قدیم یونانی شہر ایبڈرا سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون چھاتی کے سرطان کا شکار ہو گئیں۔ اسی طرح گلے کے سرطان میں مبتلا ایک شخص کی جان اس وقت بچ گئی جب طبیب نے ان کی رسولی کو آگ سے داغ دیا۔

لفظ ’کینسر‘ آیا کہاں سے؟

کینسر لفظ کی جڑیں بھی اسی دور سے ملتی ہیں۔ پانچویں صدی قبل مسیح کے اواخر اور چوتھی صدی قبل مسیح کے اوائل میں یونانی طبیب مہلک رسولیوں کو بیان کرنے کے لیے کارکنوس (Karkinos) کا لفظ استعمال کرتے تھے۔ قدیم یونانی زبان میں اس کا مطلب کیکڑا تھا۔

بعد میں لاطینی طبیبوں نے اس مرض کو بیان کرنے کے لیے کیکڑے کے لیے بولے جانے والا لاطینی لفظ ’کینسر‘ استعمال کیا۔ اس طرح اس مرض کا نام ہمیشہ کے لیے کینسر پڑ گیا۔

قدیم زمانے میں بھی لوگ سوچتے تھے کہ طبیبوں نے اس بیماری کا نام اس جانور کے نام پر کیوں رکھا؟ ایک وضاحت یہ تھی چونکہ کیکڑا ایک جارحانہ جانور ہے اسی طرح کینسر بھی ایک جارحانہ مرض ہو سکتا ہے۔ ایک اور وضاحت یہ تھی کہ جب کیکڑا کسی شخص کے جسم کے ایک حصے کو اپنے پنجوں میں دبوچ لیتا ہے تو اسے نکالنا مشکل ہو جاتا ہے، بالکل اسی طرح جیسے کینسر کے بڑھنے کے بعد اسے جسم سے ہٹانا مشکل ہو جاتا ہے۔ دیگر کا خیال تھا کہ ایسا رسولی کی ظاہری شکل کی وجہ سے تھا۔

پہلی اور دوسری عیسوی کے معروف رومن اور یونانی طبیب جالینوس نے اپنی کتاب A Method of Medicine to Glaucon میں چھاتی کے کینسر کو بیان کیا اور رسولی کی شکل کا موازنہ کیکڑے کی شکل سے کیا۔

وجوہات پر اختلاف

لیکن کینسر پیدا ہونے کی وجوہات پر تمام ماہرین طب متفق نہیں تھے۔ یونانی رومن دور میں کینسر کی وجہ کے بارے میں مختلف آرا تھیں۔

وسیع پیمانے پر تسلیم شدہ قدیم طبی نظریے کے مطابق جسم میں چار رطوبتیں ہوتی ہیں یعنی خون، ییلو بائل (صفرا)، بلغم اور بلیک بائل (سودا)۔

اس نظریے کے تحت ان چاروں رطوبتوں میں توازن رکھنا ضروری ہے ورنہ انسان بیمار پڑ جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص سودا کی زیادتی کا شکار ہو تو یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ بالآخر کینسر کا باعث بنے گا۔

دوسری اور تیسری صدی عیسوی دور کے شاہی یونانی طبیب ایراسسطراطوس اس نظریے سے متفق نہیں تھے۔ تاہم جہاں تک ہم جانتے ہیں انہوں نے اس کی کوئی متبادل وضاحت بھی پیش نہیں کی۔

قدیم زمانے میں کینسر کا علاج کیسے کیا گیا؟

زمانہ قدیم میں کینسر کا علاج مختلف طریقوں سے کیا جاتا تھا۔ اس وقت بھی طبیبوں کا خیال تھا کہ کینسر کو ان کے ابتدائی مراحل میں ادویات کے استعمال سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔

ان میں نباتات پر مبنی دوائیں جیسے کھیرا، نرگس کے پھول، ارنڈ کی پھلیاں، کڑوے پھلی دار پودے، گوبھی، جانور پر مشتمل ادویات جیسے کیکڑے کی راکھ اور دھاتیں جیسے سنکھیا (آرسینک) شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جالیونس کا دعویٰ تھا کہ اس قسم کی دوائیوں کا استعمال کرکے اور بار بار مریضوں کو ایمیٹکس یا اینیما سے پاک کرکے وہ بعض اوقات بڑھتے ہوئے کینسر کو غائب کرنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ایک ہی علاج بعض اوقات نئے کینسر کو بڑھنے سے روکتا ہے، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر یہ دوائیں کام نہیں کرتیں تو جراحی ضروری ہے۔

اس دور میں عام طور پر جراحی سے گریز کیا جاتا تھا کیونکہ مریض خون ضائع ہونے سے مر جاتے تھے۔ سب سے کامیاب جراحی چھاتی کی نپل کے کینسر پر کی گئی۔ دوسری اور تیسری صدی عیسوی کے ایک طبیب لیونیڈاس نے سرطان کے علاج کا اپنا طریقہ بیان کیا، جس میں کوٹرائزنگ (آگ سے داغنا) شامل تھا۔

کینسر کو عام طور پر لاعلاج مرض سمجھا جاتا تھا، اس لیے لوگ اس سے خوف زدہ تھے۔ پہلی صدی عیسوی کے معروف شاعر سلیئس اٹالیکس سمیت سرطان میں مبتلا کئی لوگ اس مرض سے اتنے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے خودکشی کر کے موت کو گلے لگانا زیادہ آسان سمجھا۔

مریض صحت یابی کی امید کے لیے دیوتاؤں کے مندروں پر پڑے رہتے۔ اس کی ایک مثال پانچویں صدی عیسوی میں کارتھیج (موجودہ تیونس) کی رہائشی خاتون انوسینٹیا ہیں جنہوں نے اپنے طبیب کو بتایا کہ دیوتاؤں کی کرامات نے ان کے چھاتی کے کینسر کو ٹھیک کر دیا، حالانکہ طبیب نے ان کی اس بات پر یقین نہیں کیا۔

ماضی سے مستقبل تک

ہم نے اس مضمون کا آغاز چوتھی صدی قبل مسیح کے ایک ظالم حکمران ستائرس سے کیا۔ اس کے بعد تقریباً ڈھائی ہزار سالوں میں ہماری معلومات بہت حد تک بدل گئی ہیں کہ کینسر کی وجہ کیا ہے، اس سے کیسے بچا جائے اور اگر یہ لاحق ہو جائے تو اس کا علاج کیسے کیا جائے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ کینسر کی 200 سے زیادہ مختلف اقسام ہیں۔ کچھ لوگوں کے کینسر کا کامیابی سے علاج کیا جاتا ہے اور وہ لمبی زندگی گزارتے ہیں۔

لیکن ابھی تک کینسر کا ’عام علاج‘ دستیاب نہیں ہے، یہ ایک ایسی بیماری ہے جو ہر پانچ میں سے ایک شخص کو زندگی کے کسی بھی حصے میں لاحق ہوتی ہے۔ صرف 2022 میں دنیا بھر میں کینسر کے تقریباً دو کروڑ نئے کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے 97 لاکھ لوگوں نے اپنی جان گنوا دی۔ کینسر کے حوالے سے ہمیں ابھی بھی ایک طویل سفر طے کرنا ہے۔


نوٹ: یہ تحریر پہلے دا کنورسیشن پر چھپی تھی اور یہاں اس کا ترجمہ کری ایٹو کامنز کے تحت پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے مصنف کونسٹانٹین پین گائرس آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف میلبرن میں تاریخ اور فلسفے کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت