بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی کے عالمی دن ’پنک ربن ڈے‘ کے موقع پر جہاں دنیا بھر میں مختلف تقاریب کا انعقاد کیا گیا، وہیں کراچی کے طلبہ نے ایک تھیٹر کے ذریعے چھاتی کے سرطان کے مسئلے کو اجاگر کیا۔
سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی میں ’آگاہی ضروری ہے‘ کے عنوان سے پیش کیے گئے اس تھیٹر شو میں طلبہ نے اپنی پرفارمنس کے ذریعے اس بات پر زور دیا کہ بریسٹ کینسر سے متعلق آگاہی نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لیے بھی اتنی ہی ضروری ہے۔
تھیٹر شو میں پرفارم کرنے والی بی بی اے ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ ثنا انور نے اس حوالے سے بتایا کہ ہمیں نہ صرف خود آگاہی حاصل کرنی چاہیے بلکہ اپنے دوست احباب اور خاندان میں بھی بریسٹ کینسر کے حوالے سے آگاہی پھیلانی چاہیے تاکہ جلد سے جلد پاکستان سے یہ بیماری ختم ہو۔
یونیورسٹی کی آرٹ سوسائٹی کے نائب صدر مہران حئی نے بتایا کہ اس ایونٹ میں یہ بات اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی کہ بریسٹ کینسر کے حوالے سے معلومات مرد اور خواتین دونوں کے لیے کتنی ضروری ہیں۔ ’اگر آپ کے اردگرد کوئی ایسا مریض نظر آرہا ہے اور آپ کو اس حوالے سے معلومات ہیں تو آپ اپنا کردار کسیے ادا کرسکتے ہیں۔‘
بی بی اے ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ سائرہ نے بتایا کہ اس تھیٹر پرفارمنس کے ذریعے بریسٹ کینسر سے متعلق آگاہی دی گئی ہے، جس میں بتایا گیا کہ اپنی جسمانی ساخت اور علامات سے کس طریقے سے چھاتی کے سرطان کا پتہ لگایا جاسکتا ہے اور اس کا کس طرح علاج کیا جاسکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یونیورسٹی کی آرٹ سوسائٹی کے سیکریٹری دبیر رشید نے اس حوالے سے روشنی ڈالی کہ بریسٹ کینسر کی آگاہی اور اس کے خاتمے کے حوالے سے مردوں کا کتنا کردار ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’اگر وہ (مرد) چاہیں تو اپنے گھر کی خواتین کا خیال رکھ سکتے ہیں اور ان کے ساتھ شانہ بشانہ چل کر ہم اس چیز کو ختم بھی کرسکتے ہیں۔ یہ کوئی بہت مشکل نہیں ہے اگر اس کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی پھیلائی جائے اور ابتدائی سٹیج میں ہی اس کینسر کا علاج مہیا کردیا جائے تو ہماری بہت سی خواتین اپنی زندگی کھونے سے بچ سکتی ہیں۔‘
دنیا بھر میں ہر سال سینکڑوں خواتین چھاتی کے سرطان کا شکار ہوکر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2020 میں 23 لاکھ خواتین میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص ہوئی اور پوری دنیا میں اس مرض سے چھ لاکھ 85 ہزار اموات ہوئیں جبکہ 2020 کے اختتام تک پوری دنیا میں 78 لاکھ ایسی خواتین موجود تھیں جن میں گذشتہ پانچ برس کے دوران بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوئی۔
خصوصاً پاکستان میں معاشرتی دباؤ کے باعث چھاتی کے سرطان میں مبتلا 70 فیصد خواتین تشویش ناک حالت میں ڈاکٹر سے رجوع کرتی ہیں، تاہم پنک ربن پاکستان کے چیف ایگزیکٹیو عمر آفتاب نے گذشتہ دنوں ایک سیمینار سے خطاب میں کہا تھا کہ اگر ابتدائی مراحل میں اس مرض کی تشخیص ہوجائے تو تقریباُ 90 فیصد خواتین کی جان بچائی جاسکتی ہے۔