پرانی دہلی میں برسوں تک ایک خاص لہجے کی اردو بولی جاتی رہی ہے، جسے کرخنداری اردو بھی کہتے ہیں۔
لیکن اب یہ بولی وقت کے ساتھ ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ ابھی باقی ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی میں لوگوں کو کرخنداری زبان بولتے سنا ہے، جانیے ان کی زبانی کرخنداری کی کہانی۔
پرانی دہلی کا پن کوڈ چھ ہے، اسی لیے وہ ’دہلی سکس‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ سالوں سال تک پرانے ناموں والی گلیوں میں ایک خاص لب و لہجے میں محاوراتی زبان بولی جاتی رہی ہے۔
پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ پرانی دہلی کے کرخندار ایسی زبان بولتے تھے، جو بڑی دلچسپ ہوتی تھی اور ان کے لہجے میں ایک خاص انداز ہوتا تھا۔
پرانی دہلی میں پیدا ہوئے اردو کے محقق اے رحمٰن نے کہا کہ ’پن کوڈ چھ سے ہم جس دہلی کو جانتے ہیں، اس سے وسیع ہے فصیل بند شہر جہاں کرخنداری زبان کا بول بالا رہا ہے۔‘
بقول اے رحمٰن: ’کوئی نہیں جانتا کہ کرخنداری زبان کیسے شروع ہوئی، کئی نظریات ہیں، لیکن بات یہ صحیح ہے کہ مغل حکمرانوں کے عہد سے ہی کرخنداری کا رواج کسی نہ کسی طرح رہا ہے، جبکہ غیر اشرافیہ طبقہ اپنے آپ کو ممتاز کرنے کے لیے ایک خاص لہجے میں گفتگو کرنے کو ترجیح دیتا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’کرخنداری زبان کا مطلب کارخانوں میں استعمال ہونے والی زبان، جو پرانی دہلی میں عام لوگوں کی بول چال کا حصہ رہی ہے، وہ زبان تو اب نہیں رہی ہے لیکن اب بھی لہجہ باقی ہے۔
’خاص طور پر اب پرانی دہلی میں قدیم محاورے تو ختم ہوتے جارہے ہیں، تاہم اب بھی محاروں کا استعمال ہوتا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اے رحمٰن نے بتایا کہ ’کرخنداری خالص دہلی کی زبان ہے، اس زبان سے کچھ مماثلتیں بھوپال اور دیگر شہروں میں مل جائیں گی مگر فرق واضح محسوس ہو گا۔
’اب تو یہ زبان بہ مشکل بولی جاتی ہے، تاہم کچھ لہجہ بچ گیا ہے یا ہوسکتا ہے کہ کچھ گنے چنے لوگ اب بھی بولتے ہوں۔ ان کے مطابق جو کرخندار لوگ تھے وہ اس غیر اشرافیہ طبقے سے تعلق رکھتے تھے، جو عام طور پر مزدور دستکار اور آرٹزن قسم کے لوگ تھے۔‘
ان کے مطابق: ’ایک تو یہ بغیر پڑھے لکھے لوگ تھے، ظاہر ہے ان سے قلعہ معلی کی اردو کی توقع کرنا بے کار تھا، لیکن ان لوگوں نے جان بوجھ کر بھی خود کو اس طبقہ اشرافیہ سے ممیز کرنے کے لیے اپنے لب و لہجے میں تھوڑی جارحیت پیدا کی۔‘
کرخنداری کے تعلق سے وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’اس کرخنداری زبان سے جس کلچر کا اظہار ہوتا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ فصیل بند شہر تک محدود تھا۔ اس سے باہر نہیں۔ شاید اب دوچار ہی ایسے لوگ رہ گئے ہوں جو یہ زبان بولتے ہوں یا گھر میں گفتگو کرتے ہوں۔
’اس کی وجہ یہ ہے کہ بے پڑھے لکھے لوگوں میں بھی ریڈیو ٹی وی وغیرہ اور دیگر اس طرح کے ایکسپوزر سے سمجھ بوجھ آ گئی ہے۔ بلکہ مسلمان کیا اس علاقتے کے ہندو بھی بالکل اسی طرح بولتے تھے، جو دو چار اب بھی باقی ہیں۔‘
پرانی دہلی میں ایک خاص لہجے میں اردو بولنے کے چلن کو کرخنداری نہ مانتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ’صرف آ ریا یا جا ریا کرخنداری نہیں ہے۔ یہ تو بس آسانی کے لیے ہے اور بھی کچھ الفاظ ہیں، جیسے خلیفہ اور پہلوان یہ دو لفظ بہت زیادہ استعمال ہوتے تھے لیکن ان کے کوئی معنی نہیں تھے۔ یہ الگ الگ مواقع پر الگ الگ مقاصد کے لیے استعمال ہوتے تھے۔‘
اے رحمٰن جو کہ عالمی اردو ٹرسٹ کے نام سے ادارہ چلاتے ہیں اور قدیم لہجوں پر کام کرتے ہیں، کرخنداری زبان کو بہت ہی دلچسپ قرار دیتے ہیں۔
ان کے مطابق: ’دراصل یہ زبان ایک مخصوص قسم کے کردار کا بھی پتہ دیتی تھی۔‘
دہلی کا وہ شخص جس کی پوری زندگی صبح سے شام تک کام کرنا، اس کے بعد نہاری روٹی کھانا، اس کا جو کلچر تھا، یہ مخصوص اس کی یاد دلاتی ہے۔
نرالی اردو کے نام سے کرخنداری زبان میں لکھے گئے نایاب مضامین کو مرتب کرنے والے ڈاکٹر محمد نبی بتاتے ہیں کہ ’میں نے یہ نرالی اردو کتاب، جو کہ 1932 میں شائع ہوئی تھی اور ناپید ہوگئی تھی اور اس کا ایک ہی نسخہ بچا تھا، اسی نسخے کی مدد سے ایک کتاب گرین بک کراچی نے 2017 مبں چھاپی تھی۔
’اس نسخے کی مدد سے اس کتاب کو ازسر نو اس جذبے کے ساتھ کہ کسی زمانہ میں یہ بولی بھی بولی جاتی تھی، ایک ثقافتی چیز ہے اور ایک طرح سے یہ ہمارا ثقافتی ورثہ ہے، محفوظ رکھنا ضروری سمجھا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جو محاورے ہیں، لفظیات ہیں، وہ بالکل الگ ہیں۔ جیسے حیران کو اب ہریان کوئی نہیں بولتا کہ ’کیوں ہریان کر ریا ہے؟ کوون کو کون کہنا، یہ اس طرح کی مثالیں ہیں، جو کبھی کبھی سننے کو بھی مل جاتی ہیں۔‘