پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) نے 19 جون سے پہلی پری مون سون بارش کی پیش گوئی کرتے ہوئے 2022 سے بھی شدید سیلابی صورت حال کے خدشے کا اظہار کیا ہے۔
پنجاب ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس مرتبہ مون سون کی جو آؤٹ لک ہے اس سے یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ ملک بھر میں معمول سے 35 فیصد زیادہ بارشوں کا امکان ہے۔
عرفان علی کاٹھیا کے مطابق: ’اس سال پہلے سے زیادہ بارشوں کا امکان ہے جس سے ملک بھر خاص طور پر پنجاب میں سیلابی صورت حال سال 2022 میں آنے والے سیلاب سے زیادہ خراب ہو سکتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ڈی ایم اے نے پنجاب کی انتظامیہ کو بھی موسمی صورت حال کے بارے میں الرٹ جاری کیا ہے، جس کے مطابق 16 سے 18 جون کے دوران صوبے کے زیادہ تر علاقوں میں موسم گرم اور خشک رہے گا جبکہ 18 سے 22 جون تک بیشتر اضلاع میں گرج چمک کے ساتھ بارشوں کا امکان ہے۔
پی ڈی ایم نے جنوبی پنجاب میں بھی 20 سے 22 جون کے دوران بارشوں کی پیش گوئی کی ہے۔
عرفان علی کے مطابق: ’جنوبی پنجاب میں 25 فیصد زیادہ بارشوں کا امکان ہے اور پنجاب کے شمالی علاقوں میں 38 فیصد معمول سے زیادہ بارشوں کا امکان ہے، جس سے پورے پنجاب میں مون سون کی بارشیں 30 فیصد زیادہ ہونے کا امکان ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’چونکہ اس بار درجہ حرارت بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے گلیشیئرز کے پگھلنے کا عمل جلدی شروع ہو چکا ہے، اس وجہ سے ہمارے پاس دریاؤں میں پانی کا بہاؤ زیادہ ہو گا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہمارے پاس موسمیاتی پیش گوئی کے جتنے بھی ماڈلز ہیں ہم ان کو نہ صرف نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ (این ڈی ایم اے) کی سطح پر بلکہ پی ڈی ایم اے اور محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی) کی سطح پرمانیٹر کر رہے ہیں۔‘
عرفان علی کاٹھیا کے مطابق: ’اس وقت سال 2022 میں پیدا ہونے والی سیلابی صورت حال سے کافی حد تک چیزیں مماثلت رکھتی ہیں جبکہ اس وقت ہیٹ ویو صورت حال کو 2022 کی صورت حال سے بھی زیادہ تشویش ناک کر رہی ہے کیونکہ اس ہیٹ ویو کی وجہ سے گلیشئیرز 2022 کی نسبت زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ریزوائرز، جن میں منگلہ اور تربیلہ شامل ہیں، میں گذشتہ برس سے اس وقت زیادہ پانی ہے۔‘
ان کے مطابق: ’اب اگر 30 فیصد بارشیں زیادہ ہوں گی اور سندھ میں بارشیں گذشتہ سالوں سے 55 فیصد زیادہ ہونے کی پیش گوئی ہے، جب یہ سارے عوامل اکٹھے ہوں گے تو یقیناً وہ سیلاب کی صورت حال پیدا کریں گے۔‘
ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بتایا کہ ’پنجاب کے مشرقی دریاؤں اور ان سے ملحقہ اضلاع جن میں سیلاب کا خدشہ بہت زیادہ ہے، ان کی میپنگ ہو چکی ہے۔
’ہر دریا کے حساب سے نقشے تیار ہیں، اگر دریائے چناب میں کچھ ہوتا ہے تو ہیڈ مرالہ سے خانکی، قادرآباد اور اسی طرح اگر دریائے سندھ میں سیلاب کی صورت حال بنتی ہے تو اس سے ملحقہ میانوالی و دیگر اضلاع، جن کو خطرہ ہو سکتا ہے، ہم ان سب کی میپنگ کر چکے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پی ڈی ایم اے کی اپنی ایک ملٹی ہیزرڈ ولنرابیلیٹیرسک اسیسمنٹ سٹدی (نقصان کے تخمینے کے لیے تحقیق) ہوئی ہے، جس میں 20 اضلاع انتہائی خطرے میں ہیں اور ان کا تمام ڈیٹا وہاں دریاؤں میں پانی کے بہاؤ کے ساتھ ہمارے پاس موجود ہے۔
’دریاؤں میں پانی کے بہاؤ میں اضافہ ہوتا ہے تو ہمیں معلوم ہو گا کہ کون سے دیہات، علاقے اور آبادیاں متاثر ہو سکتے ہیں اور اسی معلومات کی بنا پر فیصلہ سازی ہوتی رہتی ہے۔‘
عرفان علی کاٹھیا کا کہنا تھا: ’موسم کی تیزی سے بدلتی صورت حال کو سامنے رکھیں تو اس مرتبہ درجہ حرارت میں بہت حد تک اضافہ ہوا، اپریل کے مہینے میں موسم غیر متوقع تھا، جس کے بعد مئی میں چار سے چھ ڈگری اضافے سے ایک ہیٹ ویو کا ماحول پیدا ہوا۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’ابھی بھی یہی پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ چونکہ بہت زیادہ ہیٹ ویو ہے، درجہ حرارت اور ہوا کا دباؤ بھی زیادہ ہے جس سے مون سون وقت سے پہلے شروع ہو گی اور پی ایم ڈی نے پہلی بارش کی پیش گوئی 19 جون کو کی ہے۔‘
عرفان علی کاٹھیا کے مطابق: ’اس مرتبہ جو پی ڈی ایم اے اور این ڈی ایم اے کے فورم پر ملک بھر میں موسمی صورت حال پیدا ہوتی دیکھی جا رہی ہے اس کے مطابق زیادہ درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشئیر میلٹنگ معمول سے زیادہ ہو گی اور دریاؤں میں پانی کا بہاؤ بھی گذشتہ سالوں سے زیادہ ہو گا جس سے دریاؤں میں سیلاب کی صورت حال ہو گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں میں اس قدر تیزی سے تبدیلی ہوتی دکھائی دے رہی ہیں کہ شاید دبئی نے بھی کبھی یہ نہیں سوچا ہو گا کہ اس طرح سے وہاں کلاؤڈ بسٹنگ (بادلوں کا پھٹنا) اور سیلابی صورت حال پیدا ہو گی۔‘
نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی جانب سے جاری کردہ ’نیشنل مون سون ہنگامی منصوبے کے مطابق ملک میں مون سون میں غیر معمولی بارشیں ہوں گی، جس سے جون سے ستمبر تک ملک میں سیلاب کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔‘
ہنگامی منصوبے کے متن کے مطابق: ’موسمی حالات بتاتے ہیں کہ ملک کے زیادہ تر حصوں میں معمول سے زیادہ بارشیں متوقع ہیں جبکہ پورے ملک میں کم سے کم بھی اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت بھی معمول سے اوپر رہنے کی توقع ہے۔‘
این ڈی ایم اے کے مطابق: ’شمالی خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر، جنوبی بلوچستان اور سندھ میں درجہ حرارت میں نمایاں ترین انحراف متوقع ہے۔
’اس موسمی پیش گوئی اور ہائیڈرو میٹرولوجیکل حالات کے پیش نظر خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، جموں و کشمیر اوربالائی علاقوں میں درجہ حرارت زیادہ ہونے کے سبب برف پگھلنے میں اضافہ کا خدشہ ہے، جس سے آبی ذخائر اور انڈس بیسن میں پانی کے زیادہ بہاؤ کے امکانات ہیں۔‘
این ڈی ایم اے کے مطابق: ’زیادہ درجہ حرارت اور بارشوں کے باعث بالائی خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان گلیشیل لیک آؤٹ برسٹ فلڈ کا شکار ہو سکتے ہیں۔
’معمول سے زیادہ بارش ذراعت اور آبپاشی کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے، تاہم ضرورت سے زیادہ بارشوں سے فصلوں کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔‘
مزید کہا گیا کہ ’تمام دریاؤں (انڈس، جہلم، وغیرہ) کے بالائی کیچمنٹ میں بارش میں اضافہ، خاص طور پر مشرقی دریا (انڈیا میں) دریائے چناب، راوی میں بہاؤ میں اضافہ کا باعث بن سکتے ہیں۔‘
این ڈی ایم اے کے مطابق: ’انتہائی موسمی حالات اور معمول سے زیادہ بارشوں کے سبب بلوچستان کے پہاڑی علاقوں، خیبرپختونخوا، بالائی پنجاب، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی ریاست میں میں شدید سیلاب متوقع ہے۔‘
ڈی جی پی ڈی ایم اے عرفان علی کاٹھیا نے مزید بتایا کہ ’پنجاب میں سیلابی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تین بڑے کام کیے گئے ہیں جن میں سب سے پہلے ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کا منصوبہ ہے جو کہ تمام اضلاع، ڈیپارٹمنٹس اور صوبائی سطح پر مکمل ہو چکا ہے۔
’اس کے بعد ابتدائی اقدامات ہیں جن میں موک ایکسرسائزز (تربیتی مشقوں) سے لے کر ہمارے اہم مقامات کی حفاطت ہے، جہاں جہاں بند بنائے گئے ہیں وہاں کے دورے، تجاوزات کو ہٹانے کا کام، اربن فلڈنگ کو پیش نظر رکھتے ہوئے نالوں کی صفائی وغیرہ ہر چیز اب تک مکمل ہو چکی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آخر میں ارلی وارننگ سسٹم ہے جس میں کنٹرول رومز صوبائی، ضلعی اور تحصیل لیول پر 15 جون سے فعال ہو رہے ہیں۔
’ان تمام ہنگامی انتظامات کے پیش نظر امید ہے کہ یہ منصوبہ پنجاب اور پاکستان کو اس سیلاب کی آفت سے محفوظ رکھے گا لیکن اگر کوئی ایسی صورت حال بنتی ہے تو متعلقہ محکمے پی ڈی ایم اے، حکومت پنجاب اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت کے مطابق ہر وقت چوکنے ہیں اور حکومت اور پی ڈی ایم اے اپنی عوام کو مشکل وقت میں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔‘
قبل ازیں 2022 میں آنے والے سیلاب کے دوران پنجاب سمیت ملک بھر میں سیلابی صورت کے باعث نقصانات ہوئے تھے۔
وفاقی مالیاتی ڈویژن کی رپورٹ کے مطابق سیلاب کے دوران ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا تھا جبکہ تین کروڑ 30 لاکھ لوگ اس سیلاب سے متاثر اور 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے۔