انڈیا میں حکام نے وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں 11 افراد کے گھروں کو صرف اس الزام میں بلڈوز کر دیا کہ ان کے فریج سے بیف (گائے کا گوشت) برآمد ہوا تھا۔
انڈیا میں بعض ہندو گائے کو بھگوان کے طور پر پوجتے ہیں اور ملک کے بیشتر حصوں میں گائے اور ان کے بچھڑوں کے ذبیحہ اور ان کے گوشت کے استعمال پر پابندی ہے۔
مدھیہ پردیش میں گائے ذبح کرنے پر سات سال قید کی سزا ہے اور ثبوت فراہم کرنے کا بوجھ بھی ملزم کے سر پر ہے۔ ریاست میں مقدمے سے پہلے گائے کے ذبیحہ کے ملزم کی پراپرٹی کو تباہ کرنے کا کوئی قانون نہیں۔
اس کے باوجود نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاستوں میں خاص طور پر گائے ذبیحہ اور فرقہ وارانہ تشدد پر اکسانے جیسے الزامات کی سزا کے طور پر گھروں کو مسمار کرنا عام ہو گیا ہے۔
ان متاثرین میں زیادہ تر مسلمان ہوتے ہیں۔ یہ اقلیتی مذہبی طبقہ طویل عرصے سے ہندو قوم پرست گروہوں کے تشدد کا شکار ہے جو ان پر گائے ذبح کر کے ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا الزام لگاتے ہیں۔
بہت سے مسلمانوں کو ہندو ہجوم نے گائے کو ذبح کے لیے لے جانے کے محض شبے میں تشدد کر کے مار ڈالا۔
یہ ابھی تک واضح نہیں کہ مدھیہ پردیش میں بلڈوز کیے جانے والے گھر مسلمانوں کے ہیں یا نہیں حالانکہ کچھ صحافیوں نے ان کی شناخت مسلمان ہی ظاہر کی ہے۔
منڈلا شہر کے پولیس سپرنٹنڈنٹ رجت سکلیچا نے سرکاری خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا: ’ہم نے ملزم کے گھر کے صحن میں 150 گائیں بندھی ہوئی پائیں۔ تمام 11 ملزمان کے گھروں کے ریفریجریٹرز سے گائے کا گوشت برآمد ہوا۔
’ہمیں جانوروں کی چربی، مویشیوں کی کھال اور ہڈیاں بھی ملیں جو ایک کمرے میں بھری پڑی تھیں۔‘
ایس پی رجت سکلیچا نے کہا کہ ایک مقامی ڈاکٹر نے تصدیق کی کہ ریفریجریٹرز میں موجود گوشت گائے کا تھا اور ڈی این اے تجزیے کے لیے نمونے ملک کے جنوبی شہر حیدرآباد بھیجے گئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عام طور پر اس طرح کے واقعات کی طرح پولیس نے دعویٰ کیا کہ ملزمان کے گھر اس وجہ سے نہیں گرائے گئے کہ ان کے مالکان پر گائے کاٹنے کا شبہ تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ منڈلا میں سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر بنائے گئے تھے۔ تاہم انہوں نے اس کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔
ایس پی سکلیچا نے خود سوشل میڈیا پر گھروں کو بلڈوز کیے جانے کی تصاویر پوسٹ کیں۔
اگرچہ ریاستوں کے پاس غیر قانونی پراپرٹی کو منہدم کرنے کا اختیار ہے لیکن مدھیہ پردیش کی ہائی کورٹ نے اس سال کے آغاز میں فیصلہ دیا تھا کہ وہ مناسب طریقہ کار پر عمل کیے بغیر ایسا نہیں کر سکتیں۔
عدالت نے گھر بلڈوز کیے جانے والے ایک متاثرہ شخص کی درخواست پر اپنے حکم میں کہا تھا: ’جیسا کہ اس عدالت نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ اب مقامی انتظامیہ اور بلدیاتی اداروں کے لیے یہ معمول بن گیا ہے کہ وہ انصاف کے اصول کی تعمیل کیے بغیر کسی بھی مکان کو گرا کر اسے اخبار میں شائع کر دیں۔‘
عدالت نے مزید کہا کہ ’کسی کی پراپرٹی کو مسمار کرنا آخری حربہ ہونا چاہیے حالانکہ قانون کسی کو بھی اجازت کے بغیر گھر بنانے سے منع کرتا ہے۔
اگرچہ انڈیا میں حکام کا دعویٰ ہے کہ ان کی ’بلڈوز مہم‘ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں، تاہم ناقدین نے نشاندہی کی ہے کہ اس مہم کے تقریباً تمام متاثرین مسلمان ہیں جو ملک کی ایک ارب 40 کروڑ آبادی کا 14 فیصد ہیں اور ان کی املاک کی اس طرح کی بے دریغ تباہی اس برادری کو دبانے کی ایک علامت ہے۔
© The Independent