قزاقستان: گولڈ میڈل جیتنے والے علی الیاس نے ’شغل میں سائیکل چلائی‘

علی الیاس نے وطن واپسی پر انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کی جس میں انہوں نے دلچسپ باتیں شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی کھیلوں سے خوب لگاؤ تھا۔

حال ہی میں قزاقستان میں ایشین روڈ سائیکلنگ چیمپئن شپ میں ڈبل گولڈ میڈل جیتنے والے علی الیاس کا کہنا ہے کہ انہیں اب بھی یقین نہیں آ رہا کہ وہ یہ مقابلہ جیتے ہیں۔

ایشیا بھر کے بہترین سائکلسٹ ایشین روڈ مقابلے میں موجود ہونے کے باوجود علی الیاس نے انفرادی ٹرائل ایونٹ میں سب کو پیچھے چھوڑ کر جیت کا سہرا اپنے سر سجا لیا اور نئی تاریخ رقم کی۔

علی الیاس نے وطن واپسی پر انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کی جس میں انہوں نے دلچسپ باتیں شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی کھیلوں سے خوب لگاؤ تھا۔ ’جب میں بارہ سال کا تھا تو میں ٹینس کھیلا کرتا تھا جس کے بعد فٹ بال کی دنیا میں قدم رکھا، پھر بیڈمنٹن کھیلی اور نیشنل گیم میں گولڈ میڈل بھی حاصل کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سائیکل چلانے کا شوق نہیں تھا بس دوست کے ساتھ شغل میں سائیکل چلائی۔ ابتدا میں معمولی سی ایک سائیکل خریدی پھر آہستہ آہستہ یہ میرا شوق جنون بن گیا۔ کچھ مقابلوں میں بھی حصہ لیا اور اتفاق سے میں جیت گیا۔ نیشنل مقابلوں میں بھی حصہ لیا اور برانز میڈل بھی جیت چکا ہوں۔ ایسے ہی چھوٹے چھوٹے قدموں سے سائیکلنگ میں قدم جما لیے۔‘

بقول علی الیاس کے ایشین چیمپئن شپ ہر سال منعقد کی جاتی ہے۔ اس سال قزاقستان میں ایشین چمپئن شپ منعقد کی گئی تھی۔ ’ایشین روڈ مقابلے میں ایشیا بھر سے ماہر سائیکلسٹ حصہ لیتے ہیں اور رواں سال 25 سے زائد ایشین ممالک کے سائیکلسٹ نے حصہ لیا تھا۔‘

شدید گرمی بھی علی الیاس کو ایشین روڈ سائیکلنگ چیمپئن شپ جیتنے سے روک نہ سکی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

علی الیاس نے انٹرویو میں بتایا کہ 'ایشین روڈ مقابلے میں سب سے بڑا چیلنج چلچلاتی دھوپ گرمی میں سائیکلنگ کرنا تھا۔ بےحد گرمی کا مقابلہ کیا اور 45 سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں بھی ہمت نہیں ہاری۔ بس یہی ذہن میں تھا کہ پاکستان کے لیے جیتنا ہے۔‘

علی نے 61.4 کلومیٹر کا فاصلہ ایک گھنٹے 26 منٹ میں طے کر کے پاکستان کے لیے فتح حاصل کی۔

علی الیاس کا کہنا تھا کہ 'پاکستان میں سائیکلسٹ کے لیے بہت سی مشکلات ہیں۔ پاکستان میں سائیکلنگ کا کوئی سامان نہیں ملتا۔ سب بیرون ملک سے ڈالر کے عوض منگوانا پڑتا ہے جو جیب پر بھاری پڑ جاتا ہے تاہم اس ایونٹ کی تیاری کی لیے ایک لاکھ 10 ہزار کلومیٹر کی تربیت کرچکا تھا۔ اب تک اپنا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے ہفتے کے پانچ دن میں سو کلومیٹر ٹریننگ کرتا ہوں۔‘

ان کی الماتی، قزاقستان میں جیت نے خطے میں ایک سرکردہ سائیکلسٹ کے طور پر ان کی حیثیت کو مستحکم کیا۔ پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن کا کہنا ہے کہ بیک ٹو بیک گولڈ میڈل بین الاقوامی سطح پر پاکستانی سائیکلنگ کے لیے ایک اہم سنگ میل کی نشاندہی کرتے ہیں۔

فیڈریشن کے صدر سید اظہر علی شاہ نے علی الیاس اور پوری پاکستانی ٹیم کو ان کی شاندار کارکردگی پر مبارک باد دیتےہوئے اسے پاکستان کے لیے ایک قابل فخر لمحہ قرار دیا۔ ’علی الیاس نے نہ صرف تاریخ رقم کی ہے بلکہ ملک بھر کے لاتعداد نوجوان کھلاڑیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔‘

سائیکلسٹ علی الیاس نے بتایا کہ 'اب تک جتنی بار بھی پاکستان کے لیے مقابلے میں حصہ لیا اپنے خرچے پرگیا لیکن حکومتی سطح پر کسی نے  تعاون نہیں کیا۔ میرا شوق تھا کچھ جیب نے اجازت دی تو شق اور جنون میں پاکستان کے لیے کھیلا اور دوسرے ممالک میں بھی اپنے ملک کا نام روشن کیا لیکن مجھ سے بہت بہتر سائیکلسٹ موجود ہیں جو فنڈز کی کمی کے باعث سامنے نہیں آ پاتے۔

’میں سمجھتا ہوں کہ حکومت سائیکلنگ کے شعبے اور سائیکلسٹ پر توجہ دے تو پاکستان بے شمار گولڈ میڈلز اپنے نام کر سکتا ہے۔ بس ضرورت ہے تو اس امر کی کہ اس شعبہ کو حکومتی توجہ حاصل ہو جائے۔‘

آخر میں علی لیاس نے اپنے احساسات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہیں گولڈ میڈل جیت کر بہت اچھا محسوس ہو رہا ہے۔ ’کبھی کبھی تو یقین بھی نہیں ہوتا کہ میں جیت چکا ہوں۔‘

پاکستان سائیکلنگ فیڈریشن کے پہلے گولڈ میڈلسٹ علی الیاس کا گذشتہ شب کراچی ایئرپورٹ پر شاندار استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر سوئی سدرن گیس کمپنی (SSGC) کی انتظامیہ، کوچز، کھلاڑی، سندھ سائیکلنگ ایسوسی ایشن کے اراکین اور اس کے پرستاروں سمیت ایک بڑا اجتماع دیکھا گیا۔

دو گولڈ میڈل حاصل کرنے والے علی الیاس نے پاکستان کو جنوبی ایشیائی رینک میں سب سے اوپر پہنچاتے ہوئے تاریخ میں اپنا نام لکھوایا ہے۔ پاکستان سیئکلنگ فیڈریشن کے مطابق اس تاریخی فتح نے پاکستانی سائیکلسٹوں کی غیر معمولی صلاحیتوں کو اجاگر کرتے ہوئے پاکستان کو بھارت سے آگے کر دیا ہے۔

 سندھ سائیکلنگ ایسوسی ایشن کے نمائندے نے اس موقع پر کہا کہ ’یہ پاکستان کے لیے ایک یادگار کامیابی ہے۔ علی کی کامیابی نہ صرف ہماری قوم کے لیے باعث فخر ہے بلکہ جنوبی ایشیائی خطے میں پاکستانی سائیکلنگ کے روشن مستقبل کا اشارہ بھی دیتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل