افغان پاکستان عسکریت پسندی کے منظرنامے میں ڈرون کا داخلہ؟

تحریک طالبان اور داعش خراسان جیسے گروہوں کی طرف سے ڈرون کے استعمال کی عدم موجودگی اور طالبان کی طرف سے ڈرون کو دیر سے اپنانے کی کئی ممکنہ وجوہات ہیں۔

2016 میں طالبان کے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ایک تصویر جس میں ایک ڈرون دکھایا گیا ہے (طالبان سوشل میڈیا)

افغانستان اور پاکستان کا خطہ دنیا کا سب سے زیادہ غیر مستحکم اور عسکریت پسندی سے متاثر علاقہ ہے۔

مشرق وسطیٰ، افریقہ اور روس-یوکرین جیسے دیگر متاثرہ علاقوں کے برعکس یہ خطہ مہلک ٹیکنالوجیز کے حوالوں سے زیادہ نمایاں نہیں ہے۔

تاہم پچھلے 20 سے 25 برسوں میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں القاعدہ سے منسلک لوگوں کی طرف سے ڈرون کے استعمال کی کوشش کی گئی تھی۔ ستمبر 2005 میں پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں القاعدہ کے ایک ٹھکانے سے چینی ساختہ ریموٹ کنٹرول ہوائی جہاز برآمد کیے جو مبینہ طور پر جاسوسی اور ممکنہ ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔

اسی طرح 2012 میں ہلمند میں طالبان کے ایک ٹھکانے پر اتحادیوں کے چھاپے کے نتیجے میں آئی ای ڈیز اور چھوٹے ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ایک چھوٹا ڈرون بھی برآمد ہوا تھا۔

طالبان نے 2016 کے اوائل میں پروپیگنڈا ویڈیوز کی شوٹنگ کے لیے تجارتی غرض سے دستیاب ڈرونز کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ داعش کی طرح، طالبان نے پروپیگنڈے کے لیے اپنے خودکش حملوں کی فلم بنانے کے لیے ڈرون کا استعمال کیا تھا تاہم انہوں نے 2020 میں جارحانہ طور پر ڈرون کا استعمال شروع کیا۔

ان کا پہلا حملہ نومبر 2020 میں ہوا جب انہوں نے قندوز کے گورنر کی رہائش گاہ کے احاطے میں دھماکہ خیز مواد گرانے کے لیے ایک چھوٹے ڈرون کا استعمال کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حملے میں چار افراد ہلاک اور آٹھ زخمی ہوئے۔ تب سے طالبان نے بغلان، بلخ، پکتیا، لوگر اور فاریاب صوبوں میں ڈرون کا استعمال کیا ہے۔

2021 کے قبضے سے قبل طالبان نے ایک 12 رکنی خفیہ ڈرون یونٹ بنایا جس میں انجینیئر اور ٹیکنالوجی کے ماہرین شامل تھے تاکہ تجارتی طور پر دستیاب، اوور دی کاؤنٹر چھوٹے ڈرونز کو بموں میں تبدیل کیا جا سکے۔ طالبان کے ڈرون یونٹ نے چھوٹے ڈرونز کو کامیابی سے تبدیل کیا، جو ہوا سے محدود گولہ بارود گرانے اور زمین پر اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

2020 اور 2021 کے درمیان، طالبان کے ڈرون یونٹ نے چھ سے سات حملے کیے جو بنیادی طور پر طالبان مخالف جنگجو سرداروں اور سکیورٹی چیک پوسٹوں کے خلاف ٹارگٹ کلنگ اور مقامی حملے تھے۔ تاہم ان ڈرونز اور چھوٹے پے لوڈز سے پیدا ہونے والے شور نے طالبان کے جنگی مقاصد کو آگے بڑھانے میں ان کی افادیت کو نقصان پہنچایا۔

تحریک طالبان اور داعش خراسان جیسے گروہوں کی طرف سے ڈرون کے نہ استعمال کرنے اور طالبان کی طرف سے ڈرون کو دیر سے اپنانے کی کئی ممکنہ وجوہات ہیں۔ مثلاً ڈرونز شہری دہشت گردی میں زیادہ کارآمد اور مہلک ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ شہری ماحول میں ڈرون کا استعمال نہ صرف حفاظتی آلات پر غالب آنے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ انہیں مار گرانا مشکل ہوتا ہے۔

پاکستان اور افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی اکثریت پہاڑی یا قبائلی علاقوں میں کام کرتی ہے جہاں دھماکہ خیز مواد سے لدے کمرشل ڈرونز کی افادیت کم ہے۔

پاکستان اور افغانستان میں ڈرون کے زیادہ مستعمل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ محدود مالی وسائل ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان اور داعش خراسان جیسے گروہوں کے لیے آئی ای ڈیز، خودکش بم دھماکے، اور روایتی ہتھیار کا انتخاب زیادہ آسان ہے۔ اس خطے میں ایک اوسط آئی ای ڈی کی قیمت تقریباً 50 سے 60 امریکی ڈالر ہے جبکہ ایک تجارتی ڈرون کی قیمت پانچ سو سے ایک ہزار ڈالر کے قریب ہے جبکہ صنعتی ڈرون کی قیمت دس ہزار یا اس سے زیادہ ہے۔

دہشت گرد گروہوں کے تزویراتی اور نظریاتی مقاصد کے لیے تشہیر بھی پروپیگنڈے کا ایک اہم ذریعہ ہوتی ہے، لیکن دہشت گردی کی ہر کارروائی کا مقصد توجہ حاصل کرنا نہیں ہوتا۔ دہشت گرد گروہ کسی خاص ہتھیار کو اپناتا ہے یا نہیں اس کا انحصار اس ہتھیار کی افادیت اور تشہیر کے صحیح امتزاج پر ہوتا ہے۔

تشہیر کے علاوہ ڈرون پاکستان کے خطے میں کام کرنے والے دہشت گرد گروہوں کے لیے زیادہ آپریشنل اہمیت نہیں رکھتے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ القاعدہ سے تربیت شدہ تنظیم ترکستان اسلامک پارٹی نے افغانستان میں خصوصی ٹیمیں اور ڈرون بنانے کا آغاز کر دیا ہے۔

خطے میں غیر ملکی جنگجوؤں کی عدم موجودگی بھی اس ٹیکنالوجی کو نہ اپنانے کی اہم وجہ ہو سکتی ہے۔ ماضی میں غیر ملکی جنگجوؤں نے نئے ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے تجربات میں حصہ لیا ہے۔ مثال کے طور پر القاعدہ نے 90 کے دہائی کی آخر میں غیر روایتی ہتھیاروں کے ساتھ فعال طور پر تجربہ کیا تھا۔

آخری عنصر جس نے ڈرون کو پاکستان کے خطے میں دہشت گرد گروہوں کے لیے ٹیکنالوجی کے انتخاب کرنے سے روکا ہے وہ افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی ہے۔ طالبان نے 2021 میں اپنا ڈرون یونٹ بند کر دیا تھا۔

اس خطے میں شدت پسند تنظیموں کی طرف سے ڈرون کے استعمال کی عدم موجودگی کی بنیادی وجوہات ناموافق جغرافیہ، محدود افادیت اور زیادہ لاگت ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان اور داعش خراسان جیسے گروہوں کے لیے ڈرون ہتھیاروں کا استعمال زیادہ موثر انتخاب نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ترکستان اسلامک پارٹی جو القاعدہ سے تربیت شدہ ہے، اس نے افغانستان میں خصوصی ٹیمیں اور ڈرون بنانے کا آغاز کر دیا ہے اور متعدد روٹری ونگ ڈرون کی تیاری کا 16 ایم ایم رائفلوں کے ساتھ کامیاب تجربہ کیا گیا ہے۔

خطے میں ڈرون کی سرگرمیوں کے شواہد کو دیکھتے ہوئے پاکستان سمیت دیگر حکومتوں کو تیار رہنا چاہیے اور اس پیش رفت کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنا لائحہ عمل بنا لیا جانا چاہیے۔

یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ کالم نگار سنگاپور کے ایس راجارتنم سکول آف انٹرنیشنل سٹڈیز میں سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر