چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پیر کو مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کی اپیلوں پر سماعت کے دوران وکیل فیصل صدیقی کے مکالمے کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ’کیا آپ کی پارٹی کا آئین پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی نہیں؟ بطور آفیسر آف کورٹ اس سوال کا جواب دیں۔‘
وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ اس سوال کا جواب اس لیے نہیں دے رہے کیونکہ یہ اتنا سادہ نہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے 13 رکنی بینچ کے سامنے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق درخواستوں کی سماعت وقفے کے بعد شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے وکیل سے دریافت کیا: ’بتائیں کہ 86 امیدوار ایک فرد والی جماعت میں کیوں شامل ہوئے؟‘
دوسری جانب سپیکر خیبرپختونخوا کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے۔ ہماری تین درخواستیں تھیں عدالت چاہے تو بعد میں معاونت کے لیے تیار ہوں۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے پی ٹی آئی رہنما کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجا سے استفسار کیا ’یہ بتائیں کہ 86 امیدوار ایک فرد والی جماعت میں کیوں شامل ہوئے؟ کیا وجہ تھی کہ پی ٹی آئی کے امیدوار دوسری جماعت میں گئے؟‘
وکیل سلمان اکرم راجا نے جواب دیا: ’انہیں بتایا گیا کہ انتخابی نشان واپس ہو گیا تو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی۔ پی ٹی آئی امیدواروں نے مجبوری میں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ ’مجبوری ہو تو کیا آئین و قانون کو نہیں مانا جاتا؟ کیا مجبوری میں تمام قوانین و اصول توڑ دیے جاتے ہیں؟‘
وکیل نے جواب دیا ’سینیئر وکلا نے یہ فیصلہ کیا کہ تھا سنی اتحاد کونسل میں شمولیت میں کوئی حرج نہیں۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت منگل کی صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’تمام وکلا کو سن کر کیس ختم کریں گے‘۔
چیف جسٹس نے وکلا کو ہدایت دیتے ہوئے کہا ’تمام وکلا مختصر دلائل دیں، ہم تیسرا دن نہیں دیں گے مختصر رہیے گا۔ کل دیگر فریقین کو سنیں گے۔‘
وقفے سے قبل
پیر کو سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سنی اتحاد کونسل کے وکیل سے سوال کیا ’اگر پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے تو آزاد امیدوار پی ٹی آئی سے الگ کیوں ہوئے؟ پی ٹی آئی کے امیدواروں نے آزاد ہو کر کیا خودکشی کی ہے؟ آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں رہ جاتے تو آج کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔‘
اس معاملے پر ایک بار پھر جب سماعت کا آغاز ہوا تو سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی دلائل نے دلائل جاری رکھے۔
سماعت شروع ہونے پر پاکستان تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ وہ چند عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینا چاہتے ہیں۔
ان کے مطابق: ’ان فیصلوں میں آئینی تشریح کے لیے نیچرل حدود سے مطابقت پر زور دیا گیا، آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔‘
وکیل نے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی اور مخصوص نشستوں سے متعلق آئین کو نظرانداز کیا۔‘
چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ’الیکشن کمیشن کا فیصلہ غلط ہے تو وہ آئین کی درست وضاحت کر دیں۔‘
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ’آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لینے والی کسی بھی جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں۔ جو سیاسی جماعتیں الیکشن لڑ کر آئی ہیں انہیں عوام نے ووٹ دیا ہے۔ ایسی سیاسی جماعت جس نے انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا اسے مخصوص نشستیں کیسے دی جا سکتی ہیں؟‘
فیصل صدیقی نے آئین پاکستان کے آرٹیکل 51 و 106 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’آئینی شقوں کے کچھ بنیادی پہلو ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہوں گی اور یہ نشستیں ہر جماعت کی دی گئی فہرست پر دی جائیں گی۔ اور ہر جماعت کو یہ نشستیں آزاد امیدواروں کی شمولیت کے بعد ملیں گی۔‘
سماعت کے دوران جسٹس عرفان سعادت نے وکیل سے استفسار کیا ’آپ کہہ رہے جو نشستیں جیت کر آئے انہیں مخصوص نشستیں ملنی چاہئیں؟ جب سنی اتحاد کونسل نے الیکشن ہی نہیں لڑا تو نشستیں جیتنے والی بات تو ختم ہو گئی۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت تسلیم کیا، انتحابی نشان واپس لینے سے سیاسی جماعت ختم تو نہیں ہو جاتی۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے سوال کیا ’اگر پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے تو آزاد امیدوار پی ٹی آئی سے الگ کیوں ہوئے؟ پی ٹی آئی کے امیدواروں نے آزاد ہو کر کیا خودکشی کی ہے؟ آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں رہ جاتے تو آج کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔‘
چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں۔
’آپ کے پی ٹی آئی کے حق میں دلائل مفاد کے ٹکراو میں آتا ہے، سنی اتحاد کونسل سے تو انتحابی نشان واپس نہیں لیا گیا۔‘
سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ انتخابات نہیں کروا سکا: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے استفسار کیا ’پی ٹی آئی کے صدر تھے انہوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی؟ پی ٹی آئی نے تو انتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، جماعت نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ کسی پر ایسے انگلیاں نہ اٹھائیں، سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ تھا جو انتخابات نہیں کروا سکا۔ ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی۔‘
چیف جسٹس نے کہا ’اگر پارلیمان میں 90 فیصد آزاد امیدوار جیتتے ہیں تو مخصوص نشستیں باقی 10 فیصد جیتنے والی سیاسی جماعتوں کو ملیں گی۔‘
پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے: چیف جسٹس
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ’کہیں نہیں لکھا کہ عام انتخابات سے قبل کوئی لسٹ دی جائے، آزاد امیدوار کسی جماعت میں شامل ہوتے ہیں تو ان کی فہرست بعد میں دی جا سکتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے جواب دیا ’آپ کے مفروضے کو مان لیں تو ایک نیا نظام آ جائے گا، پی ٹی آئی نے خود اپنا قتل کیا ہے۔‘
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’جو کچھ سال 2018 میں ہوا وہی موجودہ انتخابات میں ہوا، جنہوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں انہیں اٹھا لیا گیا۔ کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کر لے؟‘
فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ وہ ان کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔
بعد ازاں کیس کی سماعت میں کچھ دیر کے لیے وقفہ کر دیا گیا۔
اس معاملے پر گذشتہ سماعت چار جون کو ہوئی تھی جبکہ تین جون کو ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ ’پاکستان میں ہائبرڈ نظام ہے، مکمل جمہوریت نہیں۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ ’ایک مفروضے پر چلتے ہیں کہ ایک سیاسی جماعت سو نشستوں پر انتخابات لڑتی ہے اور ہر سیٹ پر ایک ووٹ سے ہار جاتی ہے تو جمہوریت کی رُو سے وہ سو کی سو سیٹیں ہاری ہے، وہ خواتین اور اقلیتی نشستوں کی حقدار نہیں ہو گی، یہ ایک ہائبرڈ نظام ہے۔‘
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم نے پی ٹی آئی کی جانب سے مخصوص نشستوں کی فہرستیں دی تھیں لیکن ہمارا آفس سیل ہے، اس لیے یہاں جمع نہیں کروا سکے لیکن وہ فہرستیں الیکشن کمیشن کے پاس موجود ہیں۔‘
جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایسے نہ کریں، اگر آپ اس سلسلے میں درخواست دے سکتے ہیں لیکن اس طرح کا بیان نہ دیں۔‘
جسٹس جمال خان مندوخیل نے فیصل صدیقی سے سوالات کیے: ’کیا انتخابی نشان چھن جانے سے ایک سیاسی جماعت کا وجود ختم ہو جاتا ہے؟ کیا سیاسی جماعت کے باقی حقوق بھی سلب ہو جاتے ہیں؟
’یہ جو تاثر دیا گیا کہ جنازہ نکل گیا تو کیا یہ تاثر درست تھا؟ کیا ایک سیاسی جماعت انتخابی نشان چھن جانے کے بعد اپنے امیدوار نامزد کر سکتی ہے؟ کیا ہم اخذ کر سکتے ہیں کہ پی پی ٹی آئی بدستور قائم تھی؟‘
جسٹس منیب اختر نے اس موقعے پر کہا تھا کہ ’ہمارے سامنے ایک محدود سوال ہے، کیا مخصوص نشستیں ملنی چاہییں یا نہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل سپریم کورٹ نے چھ مئی کو ہونے والی گذشتہ سماعت میں 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا چار مارچ کا فیصلہ بھی معطل کردیا تھا، جس میں سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کردیا گیا تھا۔
عدالت عظمیٰ نے آئندہ سماعت پر الیکشن کمیشن کے حکام کو ریکارڈ سمیت حاضر ہونے کی ہدایت کی تھی۔
الیکشن کمیشن کا فیصلہ کیا تھا؟
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق چھ، الیکشن ایکٹ کے سیکشن 104 کے تحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ ’سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتیں، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔
’سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے فہرست جمع نہیں کرائی۔ لہذا یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔‘
اس وقت ایوان میں پارٹی پوزیشن کیا ہے؟
قومی اسمبلی میں اس وقت 13 جماعتیں ہیں، جن میں سے چھ جماعتیں حکمران اتحاد میں شامل ہیں۔ حکمران اتحاد کی ان جماعتوں کی مجموعی نشستیں 208 بنتی ہیں جو دوتہائی اکثریت کے عدد 224 سے کم ہیں۔
آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہو گی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں باقی تمام جماعتوں میں تقسیم ہو گئیں تو حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل گئی تھی جو کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ معطل کرنے کے بعد دوبارہ 208 ہو گئی ہیں۔
سنی اتحاد کونسل کی قومی و صوبائی اسمبلیوں کی کل مخصوص نشستوں کی تعداد 78 ہے۔ جس میں سے 23 قومی اسمبلی جبکہ باقی صوبائی اسمبلیوں کی ہیں۔