سویڈن میں عدالتی احکامات کے مطابق وکی لیکس کے شریک بانی جولین اسانج کے خلاف ریپ کے مقدمات دوبارہ کھولے جائیں گے۔
ایک پریس کانفرنس کے دوران اعلی حکام کی جانب سے یہ بات سامنے آئی کہ 2017 میں بند کیا گیا یہ کیس اب دوبارہ کھولا جائے گا۔
سویڈن میں عوامی مقدمات کے محکمے کی ڈپٹی ڈائریکٹر ایوا میری پرسان نے پریس کانفرنس کے دوران یہ بھی کہا کہ عین ممکن ہے جولین اسانج اس جرم کے مرتکب ہوئے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں جولین اسانج سے یہ تفتیش نئے سرے سے ہونا ضروری ہے۔
یہ کیس مبینہ طور پر 2010 میں زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کی درخواست پر دوبارہ کھولا گیا ہے۔
جولین اسانج کو گذشتہ ماہ لندن میں ایکواڈور کی ایمبیسی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ وہاں انہوں نے 2012 سے پناہ لےرکھی تھی۔
اس کیس کو دوبارہ چلانے کی درخواست بھی ان کی گرفتاری کے بعد سامنے آئی۔
47 سالہ جولین اسانج فی الحال لندن کی ایک جیل میں ہیں۔
جولین اسانج پر 2010 میں سٹاک ہوم میں دو خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا الزام تھا۔
اسانج نے ہمیشہ ان الزامات کر تردید کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جنسی تعلقات انہوں نے خواتین کے ساتھ باہمی رضامندی سے قائم کیے گئے تھے۔
انہیں جنسی استحصال اور غیرقانونی طور پر زبردستی کرنے کے مقدموں میں بھی تفتیش کا سامنا رہا تاہم 2015 میں ان مقدموں کا وقت گزر جانے کی وجہ سے انھیں ختم کر دیا گیا تھا۔
متاثرین کی وکیل الزبتھ ماسی فرٹز نے کہا ہے کہ اسانج کی گرفتاری حیران کن تھی ۔
ان کا کہنا تھا، ’ 2012 سے اب تک ہم جس چیز کا انتظار کر رہے تھے وہ آخر کار ہو گیا ہے، آج ہمیں وہ خوش خبری مل گئی جس کا ہمیں برسوں سے انتظار تھا‘
انھوں نے کہا 'ریپ کا شکار ہونے والے کسی فرد کو انصاف کے لیے نو برس کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔'
وکی لیکس کے ایڈیٹر انچیف کرسٹن ریفنسن کا کہنا تھا کہ جولین اسانج کا یہ کیس دوبارہ کھلنا ان پر موجود سیاسی دباو کا مظہر بھی ہے۔
نیز ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کیس کے دوبارہ کھلنے سے جولین اسانج کو خود پر لگا داغ دھونے میں مدد ملے گی۔
جولین اسانج کے وکیل پارسیمیولسن اس مقدمے کے دوبارہ کھلنے پر شدید مایوس اور حیرانی کا شکار تھے۔
انہوں نے اسے سویڈن کے قانون کے لیے ایک لمحہ شرمندگی قرار دیا۔
سویڈن میں عوامی مقدمات کے محکمے کی ڈپٹی ڈائریکٹر ایوا میری پرسان نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ جولین اسانج کا مقدمہ لندن کی جیل میں ہی شروع کیا جا سکتا ہے۔
ان کے خیال میں ایسا ہونا صرف انٹرویو پر جولین اسانج کی آمادگی سے مشروط ہے۔
جولین اسانج ایک طویل عرصے سے اس بات کی مزاحمت کر رہے ہیں کہ اگر انہیں کہیں بھی اور تفتیش کے لیے جانا پڑا تو ان کی زندگی کوشدید خطرہ لاحق ہو گا ۔
ان کے مطابق بااصول صحافت پر یہ ایک اور بدنما داغ ہو گا۔