ہمارے سماج میں عورتوں کو کمتر سمجھا جاتا ہے، انہیں برابر کا شہری بھی نہیں مانا جاتا۔ کاروکاری جیسے بوسیدہ رسم و رواج اور نام نہاد غیرت کے نام پر اکثر عورتوں کی جان لے لی جاتی ہے۔ لیکن اس سماج میں ایسی عورتیں بھی ہیں جو ظلم و جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں۔
سنیتا راٹھوڑ بھی ان بہادر اور نڈر عورتوں میں شامل ہیں جو معاشرے کے ظلم و جبر اور لاقانونیت، دہرے معیاروں کا ڈٹ کر مقابلہ کر کے بلاآخر انصاف حاصل کر لیتی ہیں۔ سنیتا کے شوہر ڈاکٹر دیپک کو جعلی پولیس مقابلے میں زخمی کرنے کے مقدمے میں سندھ ہائی کورٹ نے ڈی آئی جی لاڑکانہ عرفان بلوچ کے خلاف کیس دائر کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
یہ فیصلہ 25 ستمبر کو کیس کی سماعت کرتے جسٹس صلاح الدین کی سربراہی میں دو ارکان پر مشتمل بینچ نے زخمی ڈاکٹر دیپک کی اہلیہ سنیتا راٹھوڑ کی درخواست پر سنایا۔
فیصلے کے مطابق ڈی آئی جی عرفان بلوچ کے ساتھ دو پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ عدالت نے سندھ حکومت کو حکم دیا کہ ڈاکٹر دیپک کے علاج کا خرچہ اور فی ماہ 50 ہزار روپے بھی ادا کرے گی۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر دیپک کو کو زخمی کرنے کی تفتیش کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم ( جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی ہے۔
اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں پولیس افسر ولی اللہ دل کو سربراہ مقرر کیا گیا ہے۔ جب کہ عدالت نے دو ڈی ایس پیز، آئی ایس آئی اور آئی بی کے نمائندگان کو بھی جے آئی ٹی شامل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
عدالت میں درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ 16 اپریل 2016 کے دن ڈاکٹر دیپک کراچی سے حیدرآباد رشتہ داروں سے ملنے گئے تھے کہ وہاں پر ایک سابق افسر کی سربراہی میں پولیس اہلکاروں نے انہیں جعلی مقابلے میں زخمی کر دیا۔ زخمی کرنے کے بعد پولیس نے ڈاکٹر دیپک کو بدنام زمانہ مجرم شریف پنہور کے طور پر پیش کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوران سماعت ڈاکٹر دیپک کی درد بھری کہانی سن کر لوگ کمرہ عدالت میں اپنے آنسو نہ روک سکے۔
شریف پنہور سندہ میں ایک بدنام زمانہ ڈاکو ہے، حکومت کی جانب سے ان کے سر کی قیمت 25 لاکھ روپے مقرر کی گئی تھی۔
عدالت کے اس فیصلے پر سنیتا راٹھوڑ بہت خوش اور پر امید ہیں۔ سنیتا کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا غیر معمولی فیصلہ آئے گا۔ سندھ کے اندر ناانصافی، ظلم کے ایسے کئی واقعات ہوئے ہیں، جن میں کسی کو بھی انصاف نہیں مل سکا۔ ایسے عالم میں ہمارے کیس میں ایسا فیصلہ آنا غیرمتوقع تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد جی آئی ٹی کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے کردار پر جو الزام لگا تھا، اب اس فیصلے سے مکمل طور واضح ہو گیا ہے۔ ’اس الزام کے تحت ہم دونوں نے منفی سماجی رویوں کا بھی سامنا کیا، مگر اس کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور جدوجہد جاری رکھی۔‘
ڈاکٹر دیپک کی اہلیہ سنیتا راٹھوڑ وہ واقعہ یاد کر کے رو پڑتی ہیں۔ سنیتا کے مطابق اس دن دیپک کو اپنی شناخت ظاہر کرنے کا موقع بھی نہیں دیا گیا۔ ’بدمست پولیس اہلکاروں نے نام پوچھے بغیر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں ڈاکٹر دیپک کے بائیں پاؤں پر 12 اور دائیں پاؤں تین گولیاں لگیں۔ چند گولیاں دیپک کے دائیں بازوں پر فائر کی گئی تھیں۔‘
اس واقعے کے بعد پولیس نے موقف اختیار کیا تھا کہ ڈاکٹر دیپک بدنام زمانہ ڈاکو شریف پنہور ہے اور اس گولیوں کے تبادلے میں ان کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس مقابلے میں ان کے دو ساتھی ہلاک اور دو زخمی ہوئے۔
سنیتا راٹھوڑ اپنے شوہر کی بےگناہی ثابت کرنے کے لیے شناختی کارڈ، ڈومیسائل اور دیگر دستاویزات دکھاتے ہوئے رو پڑتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ دیپک ڈاکو نہیں بلکہ ایک اچھا شہری اور ڈاکٹر ہے۔ ’وہ تو علاج کرکے لوگوں کی جانیں بچاتا تھا، اگر کسی کو شبہ ہے تو ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ دیپک ڈاکو شریف پنہور نہیں ہے۔‘ سنیتا کے مطابق اس وقت سارے ثبوت سامنے لانے کے باوجود بھی پولیس کہتی رہی کہ ’وہ مجرم ہے، اسے مرنے دو۔‘
اسی طرح ڈاکٹر دیپک کو 13 ماہ تحویل میں رکھا گیا۔ جس کے بعد سنیتا نے حیدر آباد رجسٹری میں درخواست دائر کی، مگر نامعلوم وجوہات کے سبب وہاں اس کیس سے دستبردار ہونا پڑا۔ سنیتا نے ہار نہیں مانی۔ اس نے کراچی کی عدالت میں پھر سے درخواست جمع کرائی۔ بعد میں سندھ کے سابق وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے اس معاملے کی تحقیقات کا وعدہ کیا تھا لیکن اس وعدے پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
اس کے بعد ڈاکٹر دیپک بےگناہ ثابت ہوئے۔ ان پر دائر تمام کیسز خارج کر دیے گئے۔ مگر وہ اٹھنے کے لائق نہیں رہے۔ وہ گھر میں کمانے والے ایک ہی تھے۔ گھر چلانا اور دیپک کا علاج کرانا سنیتا کے لیے بہت مشکل تھا۔ مگر سنیتا نے بڑی بہادری سے ان کٹھن حالات کا مقابلہ کیا۔ جو کچھ بھی ملکیت تھی، بیچ کر اپنے شوہر کا علاج کراتی رہیں۔ اب تک دیپک کے 21 چھوٹے اور بڑے آپریشنز ہو چکے ہیں۔
شوہر کے علاج کے لیے متعدد درخواستیں جمع کرائیں۔ حکومت سندھ کو کہا کہ اب ڈاکٹر دیپک کی بےگناہی ثابت ہو چکی ہے تو اس کا علاج سرکاری خرچ پر کرایا جائے مگر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔
سنیتا راٹھوڑ نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست جمع کرائی کہ ان کے شوہر کا سرکاری خرچ پر علاج کرایا جائے اور اس حملے میں ملوث پولیس افسران و اہلکاروں کو سزا دی جائے۔
سنیتا راٹھوڑ اس ظلم کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوئیں اور احتجاج کیے۔ بعد میں سندھ کی سول سوسائٹی سمیت طالبات نے سنیتا کا ساتھ دیا اور مختلف اوقات پر احتجاج کرتی رہیں۔ بالآخر طویل جدوجہد کے بعد سنیتا اور ڈاکٹر دیپک کو انصاف ملا۔
ڈاکٹر دیپک بھی عدالت کے اس فیصلے پر بہت خوش ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ ہماری نظر میں ایسا فیصلہ آنا غیر متوقع تھا۔ ’ساڑھے چار برس کے بعد انصاف ملا، عدالت پر اعتماد ہے۔‘
دیپک کا مزید کہنا تھا کہ اتنے عرصے سے کیس چل رہا تھا، مگر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی تھی، مجبوری میں مایوس ہو کر پیروی کرنا چھوڑ دی تھی۔ ’بیوی سنیتا کے حوصلے اور ہمت کو دیکھ کر دوبارہ کیس کی پیروی کی تو انصاف ملا۔‘
اپنے شوہر کو انصاف دلانے کی جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ سنیتا راٹھوڑ سندھ کے سیاسی سماجی ایشوز پر بھی آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ سنیتا ایک بہت اچھی لکھاری بھی ہیں۔ وہ مختلف سندھی روزناموں میں سیاسی و سماجی معاملات پر کالم بھی لکھتی ہیں۔
سندھ سمیت سارے ملک میں بسنے والی لڑکیوں کو پیغام دیتے ہوئے سنیتا نے کہا کہ زندگی میں کبھی بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ ’ظلم و جبر کے خلاف مستقل لڑتے رہنے سے کامیابی ملتی ہے۔ اس دور میں زندہ رہنے اور حقوق حاصل کرنے کے لیے مزاحمت لازم ہے۔‘