اسانج کے وکیلوں نے امریکی عدالتوں کو کیسے شکست دی؟

جولین اسانج کی قانونی ٹیم کے مشیر اس کالم میں بتا رہے ہیں کہ امریکی عدالتوں نے اس معاملے پر ممکنہ طور پر اپنے پاؤں پر خود ہی کلہاڑی مار دی۔

وکی لیکس کے بانی جولین اسانج 26 جون 2024 کو کینبرا ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد جشن منا رہے ہیں (اے ایف پی)

ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری قانونی جنگ، جس کے دوران جولین اسانج نے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں سات سال تک سیاسی پناہ لی اور امریکہ کو حوالگی کے خلاف لڑتے ہوئے بیلمارش کی مشکل جیل میں پانچ سال اور دو ماہ کی قید کاٹی۔ وکی لیکس کے بانی نے امریکی جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی کے ایک واحد الزام کا اعتراف جرم کیا ہے۔

اس کے بعد انہیں اب تک کاٹی گئی قید کے دورانیے ہی کی سزا سنائی گئی، اور بدھ کے روز وہ اپنی بیوی اور خاندان کے ساتھ رہنے کے لیے اپنے آبائی ملک آسٹریلیا پہنچ گئے۔

وہ معاہدہ جس کے باعث اسانج آزاد ہوئے، بلاشبہ حال ہی میں انگلینڈ میں مکمل اپیل کی منظوری کے بعد طے پایا، جب دو ججوں نے امریکی حکومت سے اطمینان بخش یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کی اور ناکام ہو گئے کہ اسانج کو امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت دفاع کا سہارا لینے کی اجازت دی جائے گی اور ان پر ان کی غیر ملکی شہریت کی وجہ سے مقدمے میں امتیاز نہیں برتا جائے گا۔

(امریکی آئین کی پہلی ترمیم کسی بھی شخص کے آزادیِ اظہارِ رائے کا تحفظ کرتی ہے)

اگر ان دو ججوں نے یہ یقین دہانیاں اطمینان بخش پائی ہوتیں، تو وہ مشرقی ڈسٹرکٹ آف ورجینیا (جہاں پینٹاگون اور سی آئی اے واقع ہیں) کے لیے ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے ایک طیارے میں سوار ہوتے، جہاں انہیں 18 نکاتی فرد جرم کے تحت 175 سال کی قید کا سامنا کرنا پڑتا، لیکن اس کی بجائے وہ ایک نجی جیٹ کے ذریعے آسٹریلیا چلے گئے۔

میں نے اسانج کی حوالگی پر امریکی قانون کے ماہر کے طور پر خدمات انجام دیں اور اگرچہ مجھے امریکی حکومت کے قانونی اور پالیسی کے خیالات کے بارے میں کوئی اندرونی معلومات نہیں ہیں کہ آخر وہ ایک پلی معاہدے پر آمادہ کیوں ہوئے، یہ واضح ہے کہ برطانوی عدالتیں صحیح طور پر فکرمند تھیں کہ آیا اسانج اپنے حقوق کے لیے دلائل دے سکیں گے اور انہیں وہ حقوق نہیں دیے جائیں گے، جو اگر وہ امریکی شہری ہوتے ملتے۔

امریکی حکومت نے یقین دہانیوں کے جواب میں یہ کہا:

’خصوصاً، اگر اسانج امریکہ کے حوالے ہوئے تو انہیں مقدمے میں (جس میں کسی بھی سزا کی سماعت شامل ہے) امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت دیے گئے حقوق اور تحفظات کو اٹھانے اور ان پر انحصار کرنے کی اجازت ہو گی۔ پہلی ترمیم کے اطلاق کا فیصلہ امریکی عدالتوں کی صوابدید پر ہے۔‘

یہ بیوروکریٹک الفاظ کا ہیر پھیر تھا، جس کے ذریعے درخواست کے واضح جواب دینے سے پہلوتہی کی کوشش کی جا رہی تھی، یا پھر ایک غیر ملکی عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش تھی۔

یقیناً کوئی بھی فریق کسی بھی وقت کسی بھی کارروائی میں کوئی بھی نکتہ اٹھا سکتا ہے۔ کسی بھی درخواست، چاہے وہ جائز ہو یا مکمل طور پر بےبنیاد، کا فیصلہ لازمی طور پر عدالت کو کرنا ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، جج مقدمات کا فیصلہ کرتے ہیں، نہ کہ فریق۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی حکومت نے عدالت کو یہ نہیں بتایا کہ وہ اسانج کے پہلے ترمیمی حقوق کے ناگزیر دعوے کے جواب میں کیا موقف اختیار کرے گی۔ جیسا کہ محکمہ انصاف اچھی طرح جانتا ہے، استغاثہ کو کسی بھی ملزم کی جانب سے دائر کی گئی درخواست کا جواب دینے کا حق ہے۔ محکمہ بھی جانتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس حق کا استعمال کرتا ہے اور اس کے خیالات مؤثر ہوتے ہیں۔

امریکہ نے برطانوی عدالت کو یہ نہ بتانے کی حکمتِ عملی اختیار کی کہ اگر اسانج اپنا پہلی ترمیم کا حق استعمال کریں تو اس کا کیا موقف ہو گا۔

جیسا کہ محکمہ انصاف اچھی طرح جانتا ہے، استغاثہ کو مدعا علیہ کی طرف سے کی جانے والی کسی بھی تحریک کا جواب دینے کا حق حاصل ہے۔ محکمہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس حق کا استعمال کرتا ہے اور یہ کہ اس کے خیالات متاثر کن ہیں۔

امریکہ نے عوامی طور پر کہا ہے کہ اسانج صحافی نہیں تھے، اور ان کے طرزِ عمل کو قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا۔ یہ تقریباً یقینی ہے کہ امریکہ نے یہ موقف اختیار کیا ہوتا کہ اسانج کو ایک غیر ملکی شہری کے طور پر پہلی ترمیم کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔

 

امریکہ نے یہ حکمت عملی اختیار کی کہ وہ عدالت کو اپنے موقف اختیار کرنے کی صلاحیت سے آگاہ نہ کرے اور نہ ہی یہ کہ وہ کیا موقف اختیار کرے گا۔

امریکہ نے عوامی طور پر کہا ہے کہ اسانج صحافی نہیں تھے اور ان کے طرزِ عمل کو قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا۔ اس فرد جرم کا جارحانہ انداز میں پیچھا کرتے ہوئے یہ تقریباً یقینی ہے کہ امریکہ نے یہ موقف اختیار کیا ہوتا کہ اسانج کو ایک غیر ملکی شہری کے طور پر پہلی ترمیم کے حقوق حاصل نہیں ہیں۔

محکمہ انصاف نے متعدد مواقع پر اور مختلف تناظر میں دلائل دیے ہیں کہ غیر ملکیوں کو محض ان کے غیر شہری ہونے کی وجہ سے بعض آئینی حقوق حاصل نہیں ہیں، بشمول پہلی ترمیم کے حقوق۔ اس کا مبہم بیان یقینی طور پر یہ ظاہر نہیں کرتا کہ اس نے اپنے معمول کے موقف کو تبدیل کیا ہے اور ایک غیر ملکی شہری کو یہاں ایسا موقف اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔

لیکن ان مسائل کے حوالے سے اپنے موقف کے بارے میں کچھ کہنے کے بجائے، امریکی حکومت نے عدالت کو صرف یہ نہیں بتایا، اس امید پر کہ اس کی غیر جوابی یقین دہانیاں برطانوی ججوں سے گزر جائیں گی اور انہیں اسانج کے امریکہ بھیجے جانے کے بعد ان کے حقوق کے دعوے کے خلاف لڑنے دیں گی۔

امریکہ نے یہ نکتہ بھی واضح کیا ہے کہ قانونی مقدمات کا فیصلہ امریکی عدالتیں کرتی ہیں، نہ کہ استغاثہ۔ پھر بھی اس نے عدالت کو یہ نہیں بتانا چاہا کہ ایسے طریقے ہیں جن کے ذریعے اس مسئلے پر قبل از حوالگی ڈسٹرکٹ کورٹ میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔

اگرچہ عمومی پالیسی یہ ہے کہ ایک فوجداری ملزم کو ذاتی طور پر امریکہ آنا پڑتا ہے تاکہ عدالت میں فرد جرم سے متعلق دلائل دیے جا سکیں، مگر یہ لازمی نہیں ہے۔ فریقین حوالگی سے پہلے ایک قطعی فیصلے کے لیے امریکی عدالت سے رجوع کر سکتے تھے۔ امریکی حکومت نے برطانوی ججوں کو اس آپشن سے آگاہ نہیں کیا، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسانج کی حوالگی کا انتظار کر رہے تھے۔

حوالگی کے لیے ایک دوسرے خودمختار ملک کا تعاون درکار ہوتا ہے تاکہ وہ کسی اور ملک کی استبدادی طاقت استعمال کر کے کسی اور ملک کے فوجداری قوانین کا نفاذ کر سکے۔ ایسی درخواست میں انتہائی نیک نیتی اور شفافیت کی ضرورت ہوتی ہے، خاص طور پر ایک معاملے میں، جس میں اظہار کی آزادی جیسی بنیادی آزادیوں کا تعلق ہو۔

برطانوی عدالت اس بات کے لیے یقین دہانیاں طلب کرنے کی حقدار تھی کہ اسانج کے ساتھ کسی امریکی شہری سے مختلف سلوک نہیں کیا جائے گا اور انہیں اپنے عمل کا اس بنیاد پر دفاع کرنے کی اجازت دی جائے گی کہ اسے قانونی تحفظ حاصل ہے۔

برطانوی عدالت کو جو جواب ملے وہ اس سے بہتر کی مستحق تھی، اس لیے اس نے اسی کے مطابق عمل کیا۔ اس نے امریکہ کو اس پوزیشن میں ڈال دیا جہاں اس کے پاس محدود اثر و رسوخ باقی رہ گیا۔

امریکہ کے اقدامات نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار دی اور ممکنہ طور پر اسی کی وجہ سے اسانج کا پلی معاہدہ ممکن ہو سکا۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر