پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس کا پیر کو کہنا ہے کہ گذشتہ روز راولاکوٹ کی جیل سے 20 قیدیوں کے فرار ہونے کے بعد جیل عملے کے سات اہلکاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
ایس ایس پی راولاکوٹ ریاض مغل نے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس وقت تک جیل عملے کے سات افراد کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے جن سے اس واقعے کے حوالے سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’اس واقعے کے وقت جیل میں عملے کے 10 افراد موجود تھے جن میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ بھی شامل تھے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ: ’جیل ملازمین کے مطابق ایک شخص پینے کا مشروب ’لسی‘ دینے آیا جس کے لیے جیل کا مین گیٹ کھولا گیا اور پھر سارے قیدی باہر نکل آئے۔‘
ان کے مطابق: ’اس معاملے پر تحقیقات جاری ہیں کہ قیدیوں سے ملاقات کا شیڈیول کیا ہوتا ہے۔ اس معاملے میں جو بھی اہلکار ملوث پایا گیا اس کے خلاف ایف آئی آر ہو گی اور جو لوگ فرار ہوئے ہیں انہیں بھی گرفتار کر کے واپس لایا جائے گا۔‘
دوسری جانب جیل میں فائرنگ سے جان سے جانے والے قیدی عمر سعید کے ورثا نے پیر کو ان کی لاش کو سڑک پر رکھ کر پولیس اور جیل حکام کے خلاف احتجاج کیا۔
اس کے بعد پولیس نے تھانہ راولاکوٹ میں قیدیوں کے جیل سے فرار ہونے کے واقعے کے دوران فائرنگ سے مارے جانے والے قیدی کے حقیقی بھائی عبدالشکور کی مدعیت میں سپرنٹنڈنٹ جیل خانہ جات، ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور جیل میں موجود عملے کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی۔
ایف آئی آر میں مدعی کی جانب سے یہ موقف اپنایا گیا کہ: ’عمر سعید نے جیل سے فرار ہونے کی کوشش نہیں کی، اس کے باوجود جیل کے عملے نے اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔‘
ایف آئی آر درج ہونے کے بعد جیل میں ڈیوٹی پر موجود عملے کی گرفتاری کے بعد پولیس کے مطابق ان سے پوچھ گچھ جاری ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے اس واقعہ کے بعد اعلیٰ افسران کے تبادلے بھی کیے ہیں۔
سپیشل سیکرٹری داخلہ کو بدر منیر کو او ایس ڈی بناتے ہوئے ان کی جگہ ڈی جی ایس ڈی ایم اے طاہر ممتاز کو سپیشل سیکرٹری داخلہ تعینات کر دیا ہے۔
اس سے قبل پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس نے اتوار کو بتایا تھا کہ ضلع راولاکوٹ ڈسٹرکٹ جیل پونچھ سے 20 قیدی فرار ہو گئے جنہیں پکڑنے کے لیے شہر بھر میں ناکہ بندی کر دی گئی ہے۔
آئی جی جیل خانہ جات وحید گیلانی کے مطابق دوپہر دو اور تین بجے کے درمیان 20 قیدی فرار ہوئے جبکہ اس دوران جیل محافظ کی فائرنگ سے فرار ہونے والے قیدیوں میں سے ایک قیدی جان سے گیا۔ ان کے مطابق واقعے کی تفصیلات جمع کی جا رہی ہیں۔
وزارت داخلہ کے سپیشل سیکریٹری بدر منیر نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ قیدیوں کے پاس ایک ریوالور تھا، جسے انہوں نے ایک سنتری کو یرغمال بنانے کے لیے استعمال کیا۔
بدر منیر نے مزید کہا: ’یہ واضح نہیں ہے کہ آیا انہوں نے یہ (ہتھیار) جیل حکام سے قبضے میں لیا تھا یا باہر سے لایا گیا تھا۔‘
ایس ایس پی راولاکوٹ ریاض مغل کا کہنا تھا کہ پولیس شہر کی ناکہ بندی کر کے قیدیوں کی دوبارہ گرفتار کرنے کے لیے جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے۔
بدر منیر کے مطابق فرار ہونے والوں میں ’دہشت گردی‘ کے مقدمات میں گرفتار غازی شہزاد، عثمان اور بیت اللہ بھی شامل ہیں، جنہیں محکمہ انسداد دہشت گردی نے گرفتار کیا تھا۔
ان کے مطابق دیگر فرار ہونے والے قیدیوں میں قتل اور منشیات فروشی کے مقدمات میں گرفتار قیدی شامل ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیل سے قیدیوں کے فرار کے اس واقعے سے ایک ماہ قبل محکمہ داخلہ کی جانب سے رجسٹرار عدالت کو مکتوب لکھا گیا تھا، جس میں جیل کے غیر محفوظ ہونے سے متعلق خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔
اس سال 30 مئی کو لکھے گئے مکتوب میں تحریر کیا گیا تھا کہ غازی شہزاد، محمد ایا اور تیمور ممتاز انسداد دہشت گردی عدالت کے حکم پر راولاکوٹ جیل میں قید ہیں۔
عدلیہ سے استدعا کرتے ہوئے مکتوب میں کہا گیا تھا کہ ان افراد کو معہ مقدمات حفاظتی نقطہ نظر کے تحت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی کسی دوسری جیل منتقل کیا جانا چاہیے۔ مکتوب کے مطابق: ’ان ملزمان کے خلاف راولپنڈی اور پلندری میں ’دہشت گردی‘ کے مقدمات درج ہیں۔‘
خط میں بتایا گیا کہ ڈسٹرکٹ جیل راولاکوٹ کی عمارت بوسیدہ اور پرانی ہے اور اس کے باہر حفاظتی دیوار بھی موجود نہیں ہے۔
خط میں مزید کہا گیا کہ جیل کی عمارت شہر کی مصروف شاہرہ پر واقع ہے، جس کے باعث یہ جیل عسکریت پسندی کے مقدمات میں ملوث ملزمان کو رکھنے کے قابل نہیں ہے۔
محکمہ داخلہ نے خط میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ جیل میں بند قیدی شاطر، خطرناک اور ذہین ہیں، جو بھاگنے کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں۔