ڈھاکہ کی ایک عدالت سے اتوار کو دو عسکریت پسند فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں جنہیں بنگلہ دیشی نژاد امریکی بلاگر اور ان کے پبلشر کو قتل کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ موٹر سائیکل پر سوار افراد نے قیدیوں کو فرار کرانے سے قبل انہیں لے جانے والے پولیس افسروں پر کیمیکل سے حملہ کیا۔
وزیر داخلہ اسدالزمان نے صحافیوں کو بتایا کہ حکام نے سزا یافتہ عسکریت پسندوں اور انہیں فرار ہونے میں مدد کرنے والوں کو پکڑنے کے لیے ’بڑے پیمانے پر تلاش‘ شروع کر دی ہے۔
القاعدہ سے متاثر ہونے والے بنگلہ دیشی عسکریت پسند گروپ انصار اللہ کی بنگلہ ٹیم کے پانچ ارکان کو گذشتہ سال موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
ایک عسکریت پسند کو سیکولر بلاگر اویجیت رائے اور ان کے پبلشر فیصل عارفین دیپن کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔
42 سالہ بلاگر کو فروری 2015 میں حملہ آوروں نے بغدے سے وار کر کے اس وقت قتل کر دیا تھا جب وہ ڈھاکہ میں ہونے والے کتاب میلے میں شرکت کے بعد اپنی اہلیہ کے ساتھ گھر واپس جا رہے تھے۔
حملے میں بلاگر کی اہلیہ رفیدہ بونیا احمد کو سر پر زخم آئے تھے اور وہ ایک انگوٹھے سے محروم ہو گئی تھیں۔
آٹھ دیگر عسکریت پسندوں کو اس سال نومبر میں پبلشر کو ڈھاکہ کے علاقے شاہ باغ میں واقع ان کے دفتر میں تیز دھار آلے سے وار کر کے قتل کرنے کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
اتوار کی سرویلنس فوٹیج میں اس جگہ سے جہاں قیدیوں کو روکا گیا، تین افراد کو موٹرسائیکل پر سوار ہو کر جن کے پیچھے ایک اور موٹر سائیکل سوار تھے، فرار ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔
وزارت داخلہ نے ملکی سرحدوں پر ریڈ الرٹ جاری کر دیا ہے جب کہ مفرور قیدیوں کی گرفتاری کے لیے معلومات کی فراہمی پر 8 ہزار 171 پاؤنڈز انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔
ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس (ڈی ایم پی) کا کہنا ہے کہ ان پولیس افسران کو جو عسکریت پسندوں کے فرار کے وقت ڈیوٹی پر موجود تھے عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔
ڈی ایم پی کے ڈپٹی پولیس کمشنر جاشم الدین نے کہا کہ ’اس وقت ہم واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں اور ایک بار تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہم حقیقت تک پہنچ جائیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈھاکہ پولیس کی سراغ رساں برانچ کا کہنا ہے کہ فرار ہونے والے قیدیوں کو ’کسی بھی وقت جلد‘ گرفتار کر لیا جائے گا۔
سراغ رساں برانچ کے ایڈیشنل کمشنر ہارون الرشید نے کہا کہ عسکریت پسندوں کو عدالت جاتے وقت سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے لیکن اتوار کو ’جو کچھ ہوا‘ وہ ’غیر متوقع تھا۔‘
بنگلہ دیش کے خبر رساں ادارے یو این بی کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’عسکریت پسندوں کو فرار کروانے میں ملوث ہر ملزم کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘
حکام کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کے فرار کے ماسٹر مائنڈ فوج سے برطرف کیے گئے میجر سید ضیاالحق ہیں۔
پولیس کی سراغ رساں برانچ کے ایڈیشنل کمشنر نے مزید کہا ہے کہ ’وہ سب ہماری نظر میں ہیں اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘
مسلم اکثریتی ملک بنگلہ دیش میں بلاگرر، سیکولر کارکنوں اور مذہبی اقلیتوں کو 2013 اور 2016 کے درمیان ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔ قتل کی تمام وارداتوں کی ذمہ داری داعش یا القاعدہ سے وابستہ گروپوں نے قبول کی۔
2016 میں ڈھاکہ کے ایک کیفے پر کیے گئے حملے میں کم از کم 22 لوگ ہلاک ہو گئے تھے جن میں 17 غیر ملکی بھی شامل ہیں۔ اس واقعے کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی۔
© The Independent