وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے منگل کو اپنے ایک بیان میں اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی ایک حالیہ رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری اور زیر التوا مقدمات کو پاکستان کا ’داخلی معاملہ‘ قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ورکنگ گروپ برائے آربٹریری ڈیٹینشن نے پیر کو ’عمران خان کی گرفتاری کو صوابدیدی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے انہیں ’فوری رہا کرنے‘ اور بین الاقوامی قانون کے مطابق انہیں اس ’حراست کے باعث معاوضے اور دیگر ازالے کا قابلِ عمل حق دینے‘ کا مطالبہ کیا تھا۔
منگل کو اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی رپورٹ پر حکومتی ردعمل دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ’خودمختار ریاست کے طور پر پاکستان میں عدالتوں کے ذریعے آئین اور مروجہ قوانین پر عمل ہوتا ہے۔‘
اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ’بانی پی ٹی آئی کو ملکی آئین و قانون اور عالمی اصولوں کے مطابق تمام حقوق حاصل ہیں، وہ ایک سزا یافتہ قیدی کے طور پر جیل میں ہیں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’کئی مقدمات میں بانی پی ٹی آئی کو ریلیف ملنا شفاف اور منصفانہ ٹرائل اور عدالتی نظام کا مظہر ہے۔‘
اعظم نذیر تارڑ کے مطابق: ’آئین، قانون اور عالمی اصولوں سے ماورا کوئی بھی مطالبہ امتیازی، جانبدارانہ اور عدل کے منافی کہلائے گا۔‘
عمران خان کی حراست بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے: اقوام متحدہ ورکنگ گروپ
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ نے پیر کو کہا تھا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان کی گرفتاری صوابدیدی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور انہیں فوری رہا کیا جانا چاہیے۔
جینیوا میں قائم اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے آربٹریری ڈیٹینشن نے کہا کہ ’مناسب مداوا یہ ہوگا کہ عمران خان کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور بین الاقوامی قانون کے مطابق انہیں اس حراست کے باعث معاوضے اور دیگر ازالے کا قابلِ عمل حق دیا جائے۔‘
اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کا کہنا تھا کہ عمران خان کی قانونی مشکلات ان کے اور ان کی پارٹی کے خلاف ’جبر کی بہت بڑی مہم‘ کا حصہ ہیں۔
گروپ کی جانب سے مزید کہا گیا ہے کہ 2024 کے انتخابات سے قبل عمران خان کی پارٹی کے ارکان کو گرفتار اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ان کی ریلیوں میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ ’انتخابات کے دن بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کی گئی اور درجنوں پارلیمانی نشستیں چوری کی گئیں۔‘
واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے نے فوری طور پر اس حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم پاکستان کا الیکشن کمیشن انتخابات میں دھاندلی کی تردید کرتا ہے۔
عمران خان گذشتہ سال اگست سے جیل میں ہیں اور فروری میں ہونے والے قومی انتخابات سے قبل انہیں کچھ مقدمات میں سزا سنائی گئی تھی۔ وہ درجنوں دیگر مقدمات بھی لڑ رہے ہیں جو کہ جاری ہیں۔ عمران خان اور ان کی پارٹی کا کہنا ہے کہ یہ الزامات ان کی اقتدار میں واپسی کو روکنے کے لیے سیاسی محرکات پر مبنی ہیں۔
حالیہ مہینوں میں پاکستانی عدالتوں نے سرکاری تحائف کے غیر قانونی حصول اور فروخت (توشہ خانہ) سے متعلق مقدمے میں عمران خان کی قید کی سزا معطل کر دی ہے اور ریاستی راز افشا کرنے (سائفر) کے الزام میں ان کی سزا کو بھی منسوخ کر دیا ہے۔
تاہم وہ ایک اور کیس میں سزا کی وجہ سے جیل میں ہیں جس میں ٹرائل کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ 2018 میں ان کی بشریٰ بی بی سے شادی غیر قانونی تھی۔ عمران خان کو گذشتہ سال نو مئی میں پر تشدد واقعات کے سلسلے میں انسداد دہشت گردی کے الزامات کے تحت مقدمے کا بھی سامنا ہے۔
عمران خان 2018 میں اقتدار میں آئے تھے اور 2022 میں انہیں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے ہٹا دیا گیا تھا۔ وہ اور ان کی پارٹی یہ الزام عائد کرتی ہے کہ امریکہ اور پاکستانی فوج نے پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے انہیں اقتدار سے ہٹانے میں کردار ادا کیا، تاہم دونوں ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
عمران خان کو عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد ان کے خلاف متعدد مقدمات دائر کیے گئے تھے جس کے باعث وہ فروری کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دے دیے گئے۔
خود الیکشن نہ لڑنے کے باوجود عمران خان کے حمایت یافتہ امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لے کر سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے مخلوط حکومت تشکیل دی۔
پی ٹی آئی آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات کو غیر شفاف اور دھاندلی زدہ قرار دیتی آئی ہے جبکہ امریکہ سمیت بعض ممالک کی طرف سے بھی پاکستان کے حالیہ انتخابات پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔
امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے آٹھ فروری کے عام انتخابات میں مبینہ بے ضابطگیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا جبکہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش نے بھی انتخابات کے دوران تشدد اور موبائل فون سروسز کی معطلی پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گذشتہ ماہ 25 جون کو امریکی ایوان نمائندگان میں پاکستان میں حالیہ عام انتخابات میں مبینہ بے ضابطگی اور مداخلت کی مکمل اور آزادانہ تحقیقات کے مطالبے اور ملک کے جمہوری نظام سے متعلق ایک قرارداد بھی منظور کی گئی تھی۔
رپبلکن رکن رچرڈ میکارمک اور کانگریس کے رکن ڈین کلڈی کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کے اہم نکات میں آٹھ فروری 2024 کے عام انتحابات میں مبینہ بے ضابطگی یا مداخلت کی مکمل اور آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ، جمہوریت کی حمایت کے علاوہ، انسانی حقوق، آزادی اظہار کا تحفظ اور جمہوری عمل میں عوام کی شرکت کو یقینی بنانا شامل ہے۔
جس پر پاکستان نے اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ ’پاکستان، دنیا کی دوسری سب سے بڑی پارلیمانی جمہوریت اور مجموعی طور پر پانچویں سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر، ہمارے اپنے قومی مفاد کے مطابق آئین پرستی، انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کی اقدار کا پابند ہے۔‘
ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان باہمی احترام اور افہام و تفہیم پر مبنی تعمیری بات چیت اور ملاقاتوں پر یقین رکھتا ہے، ’اس لیے ایسی قراردادیں نہ تو تعمیری ہیں اور نہ ہی بامقصد۔ ہمیں امید ہے کہ امریکی کانگریس پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں معاون کردار ادا کرے گی اور باہمی تعاون پر توجہ مرکوز کرے گی جس سے ہمارے عوام اور ممالک دونوں کو فائدہ پہنچے گا۔‘
عمران خان کو فوری رہا کیا جانا چاہیے: پی ٹی آئی رہنماؤں کا مطالبہ
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ کی اس رائے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے متعدد رہنماؤں نے ایکس پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمر ایوب نے ایکس پر لکھا کہ ’وزیراعظم عمران خان کی قید مکمل طور پر غیر قانونی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو رہا کرو۔‘
رکن قومی اسمبلی زرتاج گل نے ایکس پر لکھا: ’مسٹر خان کی صوابدیدی حراست پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کے ورکنگ گروپ نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ ان کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جوابدہ ٹھہرائے، انہیں فوری طور پر رہا کرے۔‘
پی ٹی آئی رہنما ذلفی بخاری نے لکھا کہ ’جنیوا میں قائم صوابدیدی حراست سے متعلق اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ نے مہینوں کی محنت کے بعد اپنی باضابطہ رائے دی ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان کی نظربندی غیر قانونی ہے اور انہیں فوری رہا کیا جانا چاہیے۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’ورکنگ گروپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ان کی نظر بندی کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد انہیں الیکشن میں حصہ لینے کےلیے نااہل قرار دینا تھا۔
ذلفی بخاری نے مزید کہا: ’میں ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اقوام متحدہ میں اس کیس پر انتھک محنت کی۔ یہ اب ’اندرونی معاملہ‘ نہیں رہا۔‘