قید تنہائی میں ہوں، صرف ایک جماعت نشانہ ہے: عمران خان

سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے کیس میں عمران خان کی درخواست پر انہیں وکلا سے ملاقات کا حکم دیا ہے۔

عمران خان 16 مئی، 2024 کو اڈیالہ جیل سے سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران لائیو سٹریمگ کے ذریعے پیش ہوئے (پی ٹی آئی ایکس اکاؤنٹ)

سپریم کورٹ نے جمعرات کو قومی احتساب بیورو (نیب) کے قوانین میں ترامیم کے خلاف اپیلوں میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی درخواست پر انہیں وکلا تک رسائی فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔

آج اپیلوں کی سماعت میں اڈیالہ جیل میں قید عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر صوبہ خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ’یہ مقدمہ عوامی مفاد اور دلچسپی کا ہے، لہٰذا سماعت کو براہ راست نشر کیا جانا چاہیے۔‘

اس پر پانچ رکنی بینچ کے رکن جسٹس اطہر من اللہ نے لائیو سٹریمنگ کی حمایت کرتے ہوئے کہا: ’مقدمہ پہلے لائیو دکھایا جاتا تھا تو اب بھی لائیو ہونا چاہیے۔‘ 

بعد ازاں لائیو سٹریمنگ کا فیصلہ کرنے کے لیے جج مشاورت کے لیے چلے گئے اور سماعت میں آدھے گھنٹے کے لیے وقفہ کر دیا گیا۔ 

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ میں ان اپیلوں پر سماعت کرنے والے دیگر ججوں میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔

سماعت کا دوبارہ سے آغاز ہوا تو براہ راست نشریات کی درخواست چار ایک سے مسترد کر دی گئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے بتایا کہ بینچ میں جسٹس اطہر من اللہ واحد تھے جنہوں نے براہ راست نشریات کا کہا۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے حقائق نہیں دیکھے، پارلیمنٹ کی قانون سازی اس طرح کالعدم قرار نہیں دی جا سکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا، ’وزیر اعظم نے ہمیں کالی بھیڑیں کہا، فیصلہ پسند کا آئے تو جج ٹھیک پسند کا نہ آئے تو جج کالی بھیڑیں بن جاتے ہیں؟ باقیوں کا مجھے پتہ نہیں میں اخبار، سوشل میڈیا اور ٹیلی وژن بھی دیکھتا ہوں۔‘

اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ ججز کے بارے میں ایسا نہیں کہا گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا: ’ہمیں سابق وزیر اعظم اور حکومت سے بھی گلہ ہے، جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو مخالفین پر مقدمات بنا دیے جاتے ہیں۔ دائیں سائیڈ والے بائیں سائیڈ جائیں تو نیب کو ان کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ اپنے مسائل خود حل کیوں نہیں کرتی؟ سپریم کورٹ میں ایسے مقدمات کیوں لائے جاتے ہیں؟ پارلیمنٹ سزا کم رکھے یا زیادہ خود فیصلہ کرے یہ اس کا کام ہے، سپریم کورٹ تو صرف قانون کے آئینی ہونے یا نہ ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے۔

’کیا نیب کے سیکشن میں تبدیلی کر کے نواز شریف کی سزا ختم نہیں کی گئی؟‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا نیب ترامیم سے مجرموں کو فائدہ پہنچایا گیا ہے؟‘

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ نیب ترامیم سے جرائم کی نوعیت کو واضح کیا گیا ہے۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے سوال کیا، ’کیا کچھ لوگوں کی سزائیں نیب ترامیم کے بعد ختم نہیں ہوئیں؟ کیا نیب سیکشن نو اے پانچ میں تبدیلی کر کے نواز شریف کی سزا ختم نہیں کی گئی؟ نواز شریف کا کیس اثاثوں کا تھا جس میں بار بار ثبوت والی شق تبدیل کی گئی۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب ترامیم سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں کی گئیں۔

چیف جسٹس نے سوال کیا: ’کیا خیبرپختونخوا حکومت اپنے صوبے میں یہ قانون لاسکتی ہے جو پارلیمنٹ نے ترمیم کی؟‘

اس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا صوبائی حکومت ایسا کرسکتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت اپنے طور پر قانون بنا سکتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اس صوبے میں احتساب ایکٹ اس لیے ختم ہوا کہ وہاں نقصان ہو رہا تھا۔

چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ کی تو آسان دلیل ہے کہ اقلیتی فیصلے کو اکثریتی فیصلہ کر دیں۔‘

وکیل نے جواب دیا کہ ’اگر پارلیمنٹ کسی قانون کی سزا کو مکمل ختم بھی کر دے تب بھی اسے یہ اختیار حاصل ہے، پارلیمنٹ عدالتوں پر بوجھ کم کرنے کے لیے قانون سازی کرسکتی ہے، اکثریتی فیصلے میں 10 کروڑ روپے کی کرپشن تک نیب کو کارروائی کا کہا گیا۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے سوال، ’کیا کرپشن کی حد کا اصول عدلیہ کیسے طے کرسکتی ہے؟ اقلیتی رائے میں کہا گیا ریٹائرڈ ججز اور جرنیلوں کو نیب قانون سے استثنیٰ نہیں ملنا چاہیے، کیا آپ اس رائے سے اتفاق کرتے ہیں؟‘

وکیل مخدوم علی خان نے کہا ان کی رائے بالکل ایسی ہی ہے لیکن اٹارنی جنرل بہتر جواب دے سکتے ہیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پرویز مشرف کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب تحقیقات کی بات کی۔

’کسی جج کو نیب قانون سے کیسے استثنیٰ دیا جا سکتا ہے؟ ہم ججز مقدس گائے کیوں ہیں؟ کسی کو بھی قانون سے ماورا نہیں ہونا چاہیے۔‘

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ’سروس آف پاکستان کی تعریف میں ججز نہیں آتے، ججز آئینی عہدے ہیں۔‘

’قید تنہائی میں ہوں‘

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا ’آپ کتنا وقت لیں گے؟ آپ خود بات کریں گے یا آپ کے وکیل؟‘

عمران خان نے جواب دیا: ’مجھے عدالت سے خطاب کرنا ہے۔ میں نے سٹاف سے متعلقہ چیزیں فراہم کرنے کی گزارش کی تھی۔

’مجھے یہاں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔ مجھے اپنی قانونی ٹیم سے بھی مشاورت کرنی ہے کیونکہ یہ سب سے اعلیٰ عدالت ہے۔ زندگی اور موت کا سوال ہے۔ مجھے صرف 30 منٹ چاہییں۔‘

انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’یہاں ون ونڈو آپریشن ہے، یہاں کرنل صاحب ہوتے ہیں وہ جیل کے انتظامات دیکھ رہے ہیں۔ گزارش ہے جب آرڈر دیں تو سامنے دیجیے گا۔‘

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’ہماری دو درخواستیں آپ کے سامنے پڑی ہوئی ہیں، گزارش ہے کہ انہیں جلد مقرر کر دیں۔ حامد خان ان درخواستوں کے وکیل ہیں۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔‘

عمران خان نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’چیف جسٹس صاحب آپ سے بات کرنے کا موقع پھر نہیں ملے گا، مجھے اپنے وکلا سے بھی نہیں ملنے دیا جاتا۔ صرف ایک جماعت پر ظلم کیا جا رہا ہے۔ آٹھ فروری کو لوگوں کے مینڈیٹ کی سب سے بڑی چوری کی گئی۔‘

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’آپ نے کس وکیل کو ملنا ہے،‘ تو عمران خان نے جواب دیا کہ وہ وکیل خواجہ حارث سمیت دیگر چند وکلا سے ملنا چاہتے ہیں۔‘

بعد ازاں سپریم کورٹ نے خواجہ حارث کو بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ’خواجہ حارث اپنے ایک دو ساتھی وکلا کے ساتھ بانی پی ٹی آئی سے مل سکتے ہیں۔‘

چیف جسٹس نے عمران خان سے کہا کہ آپ کی یہ باتیں بعد میں سنیں گے۔ کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

اس سے قبل عمران خان 16 مئی کو بذریعہ ویڈیو لنک ہی ان اپیلوں کی سماعت میں پیش ہوئے تھے۔

گذشتہ سماعت سپریم کورٹ نے براہ راست نشر نہیں کی تھی۔ تاہم عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کی ایک تصویر انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی جو بظاہر کمرہ عدالت میں لی گئی تھی۔

16 مئی کو تقریباً ڈھائی گھنٹے کی سماعت کے دوران عمران خان کو بولنے کا موقع نہیں ملا تھا اور حکومتی وکیل دلائل دیتے رہے۔

جس کے بعد عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ ججوں کی دستیابی پر آئندہ تاریخ کا اعلان کیا جائے گا جبکہ عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کے انتظامات آئندہ سماعت پر بھی برقرار رہیں گے۔

اسی معاملے پر 14 مئی کو ہونے والی سماعت پر عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت جاری کی تھی کہ اس کیس کے مرکزی درخواست گزار عمران خان کی اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری یقینی بنائی جائے۔ 

14 مئی کو ہونے والی سماعت میں عدالت نے اپنے حکم نامے میں نیب سے اخراجات اور ریکوری کی تفصیلات بھی طلب کیں تھیں۔

سپریم کورٹ نے وکیل خواجہ حارث کو نوٹس جاری کیا اور اٹارنی جنرل کو عمران خان کے لیے آئندہ سماعت پر ویڈیو لنک انتظام کرنے کی ہدایت کی تھی۔

گذشتہ برس 31 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کا حکم نامہ لکھواتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ ’نیب ترامیم کیس کے فیصلے کو معطل نہیں کریں گے، صرف احتساب عدالتوں کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکیں گے۔‘

نیب ترامیم کی مرکزی درخواست

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے سال 2022 میں اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کی زیر قیادت سابق حکومت کی متعارف کردہ نیب ترامیم کو چیلنج کیا گیا تھا، جس کی سماعت سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بینچ نے کی تھی۔

نیب ترامیم کیس کا فیصلہ کیا تھا؟

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کا فیصلہ گذشتہ برس 15 ستمبر کو سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے سے قبل جاری کیا تھا جس میں سپریم کورٹ نے بے نامی کی تعریف، آمدن سے زائد اثاثوں اور بار ثبوت استغاثہ پر منتقل کرنے کی نیب ترمیم کالعدم قرار دے دی تھی۔ 

اکثریتی فیصلے میں عدالت نے قرار دیا تھا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جبکہ عدالت نے 50 کروڑ کی حد سے کم ہونے پر ختم ہونے والے تمام مقدمات بھی بحال کر دیے اور انہیں احتساب عدالت میں بھیجنے کا حکم دیا تھا، نیب کو سات دن میں تمام ریکارڈ متعلقہ عدالتوں بھیجنے کا حکم جاری کیا تھا۔

یہ فیصلہ تین رکنی بنچ نے سنایا تھا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اکثریتی فیصلہ دیا جبکہ تیسرے جج جسٹس منصور علی شاہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

نیب ترامیم کا فیصلہ سپریم کورٹ میں کب چیلنج ہوا؟

گذشتہ برس17 اکتوبر کو وفاقی حکومت نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔

 اپیل میں وفاق، نیب اور چیئرمین پی ٹی آئی کو فریق بنایا گیا۔ جبکہ 15 اکتوبر کو درخواست گزار زبیر احمد صدیقی نے بھی پریکٹس پروسیجر قانون کے تحت نیب ترامیم فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس میں نیب ترامیم کے خلاف فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی۔ 

پی ڈی ایم حکومت نے نیب میں کیا ترامیم کی تھیں؟

پی ڈی ایم حکومت کے دوران نیب کے قانون میں 27 ترامیم کی گئی تھیں، نیب ترمیمی بل 2022 کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ سمجھا جائے گا۔

نیب ترمیمی بل 2022 کے تحت نیب 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کی تحقیقات نہیں کر سکے گا۔

نیب ترمیمی بل کے تحت احتساب عدالت کے ججوں کی تقرری سے متعلق صدر کا اختیار بھی واپس لے کر وفاقی حکومت کو دے دیا گیا تھا جبکہ پراسیکیوٹر جنرل نیب کی مدت ملازمت میں تین سالہ توسیع کی جا سکتی تھی۔

نیب قانون کے سیکشن 16 میں بھی ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت جہاں جرم کا اتکاب ہو گا اسی علاقے کی احتساب عدالت میں مقدمہ چل سکے گا۔

بل میں سیکشن 19 ای میں بھی ترمیم کی گئی تھی، جس کے تحت نیب کو ہائی کورٹ کی مدد سے نگرانی کی اجازت دینے کا اختیار واپس لے لیا گیا۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکتا تھا اور ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا تھا۔

نیب ترمیمی بل کے تحت ملزمان کے خلاف تحقیقات کے لیے دیگر کسی سرکاری ایجنسی سے مدد نہیں لی جا سکے گی، جبکہ ملزم کو اس کے خلاف الزامات سے آگاہ کیا جائے گا تاکہ وہ عدالت میں اپنا دفاع کر سکیں۔

 نیب آرڈیننس میں یہ بھی ترمیم کی گئی تھی کہ نیب کسی بھی ملزم کا زیادہ سے زیادہ 14 دن کا ریمانڈ لے سکتا ہے تاہم بعد ازاں اس میں مزید ترمیم کرتے ہوئے اس مدت کو 30 دن تک بڑھا دیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان