کیا اس مرتبہ بھی ’مرزا پور‘ کی دھاک بیٹھے گی؟

اس ویب سیریز کا پہلا سیزن 2018 میں پیش کیا گیا، جس کی نو اقساط تھیں اور پھر دو سال بعد اس کا اگلا سیزن آیا۔ پہلے سیزن کے برعکس دوسرے میں 19 اقساط تھیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس بار بھی تعداد کچھ اتنی ہی ہو گی۔

20 جون 2024 کو بالی وڈ اداکار وجے ورما، رسیکا دوگل، علی فضل اور پنکج ترپاٹھی ایمازون پرائم پر ریلیز ہونے والی ویب سیریز مرزا پور کے سیزن تھری کے ٹریلر لانچ میں شریک (سجیت جیسوال/ اے ایف پی)

خوف، ایکشن، ماردھاڑ، قتل و غارت گری، سینسر کی قید سے آزاد مکالمات اور مناظر اور پھر مداحوں کے دلوں میں جگہ بناتے ہوئے کردار، یہ سارے شاہکار آپ کو بالی وڈ کی ویب سیریز ’مرزا پور‘ میں دیکھنے کو ملیں گے۔

مرزا پور کا تیسرا سیزن پانچ جولائی کو او ٹی ٹی پی ’ایمازون پرائم ویڈیو‘ پر پیش کردیا جائے گا۔ یقینی طور پر ’مرزا پور‘ ایک ایسی ویب سیریز ہے جس نے اپنے پہلے سیزن سے مقبولیت اور شہرت کا ایک ایسا سفر طے کیا، جس کی مثال ذرا کم ملتی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بےجا نہ ہو گا کہ ویب سیریز ٹرینڈ کو کامیاب بنانے میں ’مرزا پور‘ کا مثالی کردار رہا ہے۔

علی فضل، پنکج ترپاٹھی، وکرانت مستری، ایشا تلوار، وجے ورما یا پھر اس سیریز کے وہ اداکار جنہوں نے مختصر سے ہی کردار ادا کیے لیکن اپنی اداکاری اور چند مکالمات سے پرستاروں میں گھر کر گئے بلکہ ان کے مکالمات زبان زد عام ہوئے۔

کہانی کیا ہے؟

ویب سیریز’مرزا پور‘ کی کہانی کا جائزہ لیں تو اس موضوع پر آپ کو بےشمار فلمیں مل جائیں گی یعنی حالات و واقعات کی ٹھوکر کھانے کے بعد دو پڑھے لکھے نوجوانوں کا جرم کی دنیا میں قدم رکھنا اور پھر اپنی جرات اور بہادری سے خوف اور دہشت کی علامت بن جانا، انہی مرکزی کرداروں میں سے ایک بھائی کے قتل کے بعد دوسرے کا بے رحم اور سفاک ہونا۔

یہ موضوع ایسا ہے جس پر کئی تخلیقات پیش کی جا چکی ہیں۔ پھر اسی طرح سیاست اور جرم کی دنیا کا تال میل اور ایک دوسرے کے لیے خود کو ہر مشکل مرحلے میں معاون ثابت کرنا، بہت ساری فلموں میں ایسا ہوچکا ہے، تو اس اعتبار سے ’مرزا پور‘ کی کہانی کوئی چونکا دینے والی نہیں کہ آپ کو لگے کہ اس سے پہلے تو اس نوعیت کی کئی فلمیں دیکھنے کو نہ ملی ہوں، لیکن اس کے باوجود ویب سیریز کا کامیاب ہونے کا ایک اہم راز اس کی ڈائریکشن، کہانی کا تیز ترین ٹیمپواور پھر اداکاروں کی طاقتور اداکاری کو جاتا ہے۔

مثلاً آپ اگر گڈو پنڈت یعنی علی فضل کے کردار کو دیکھیں گے تو آپ کو کہیں نہ کہیں اس نوجوان کی عکاسی ملے گی جو فرسودہ سسٹم کی وجہ سے تذبذب اور بے چینی کا شکار ہو کر ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو جاتا ہے اور جو شرافت کی زندگی چھوڑ کر شارٹ کٹ استعمال کرتے ہوئے طاقت اور دولت دونوں حاصل کرنے پر تلا ہوا ہے۔

اسی طرح سیزن ٹو میں اپنی دھاک بٹھانے والے منا بھیا یعنی دیواندو شرما نے اپنی ڈائیلاگ ڈلیوری سے کام لیا۔ بااثر والد کے بگڑے ہوئے خود سر اور بےرحم بیٹے کے روپ میں وہ بات بے بات پر خون کی ندیاں بہانے کے لیے تیار رہتے۔ ان کے چاہنے والوں کو اس بات کا رنج ہے کہ تیسرے سیزن میں وہ اس لیے نہیں ہوں گے کیونکہ پچھلے میں ان کی موت دکھائی گئی ہے۔

یہاں یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ابتدا میں دیواندو شرما کو وکرانت میسی والا کردار مل رہا تھا۔ ریہرسل بھی ہوچکی تھی اور وہ گڈو بھائی کے چھوٹے بھائی بن کر مختلف مناظر عکس بند کروا چکے تھے۔ تب ایک دن ہدایت کار نے یہ معلوم کیا کہ انہیں منا بھائی والا کردار کیسا لگا؟ دیواندو کا کہنا تھا کہ کاش وہ یہ کردار ادا کرتے۔ تب منا بھائی کے کردار کے لیے دیواندو کو آزمایا گیا جنہوں نے اپنی اداکاری سے مایوس نہیں کیا۔ اسی بنا پر یہ کردار دیواندو کے پاس آیا جب کہ ببلو کے لیے وکرانت میسی کا انتخاب کیا گیا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط بھی نہ ہوگا کہ ایک ہی سیزن میں نظر آنے والے وکرانت میسی نے ایسی جم کر اداکاری کی کہ اس کے بعد ان کے لیے بالی وڈ کی کئی فلموں کی راہ ہموار ہوئی۔

ان سب کے درمیان پنکج ترپاٹھی جو جرم کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ قالین بھیا کے نام سے سیاست اور اقتدار کے ایوانوں میں ان کا اثر و رسوخ کام کرتا ہے، جو قالین بافی کی آڑمیں اسلحے کے ساتھ منشیات کی سمگلنگ میں بھی ملوث ہیں۔

پنکج ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ جب انہیں یہ کردار سنایا گیا تو رائٹرز نے ان کے لیے بے شمار مکالمات لکھے تھے لیکن یہ پنکج ہی تھے جنہوں نے خود فرمائش کر کے اپنے لیے کم سے کم مکالمات لکھوائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اس تخلیق کا سب سے طاقتور کردار ہے تو وہ جتنا کم بولے گا، اس کا اثر اتنا ہی ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ویب سیریز میں اب تک پنکج ترپاٹھی نے چہرے کے تاثرات سے زیادہ کام لے کر اپنے جذبات اور احساسات کو ایسا پیش کیا ہے، جو ممکن ہے کہ مکالمات کے ذریعے نہ ہو پاتا۔

پھر اسی ویب سیریز میں سسر کے ہاتھوں جنسی طور پر ہراساں کی جانے والی بہو کی کہانی کو پیش کرکے خاصا بولڈ قدم اٹھایا گیا۔ یہی نہیں ’مرزا پور‘ کی مختلف خواتین کے کردار خود مختار اور جرات مندانہ طرز عمل کی عکاسی کرتے ہیں کہ اگر راہ میں کوئی مشکل ہو تو یہ خواتین تن تنہا ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرنے کے لیے چوکس رہتی ہیں۔ اب چاہے وہ گڈو بھیا کی والدہ کا کردار ہو یا پھر قالین بھیا کی شریک سفر کا۔

طویل عرصے میں صرف تین سیزن؟

اس ویب سیریز کا پہلا سیزن 2018 میں پیش کیا گیا، جس کی نو اقساط تھیں اور پھردو سال بعد اس کا اگلا سیزن آیا۔ پہلے سیزن کے برعکس دوسرے میں 19 اقساط تھیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس بار بھی تعداد کچھ اتنی ہی ہو گی۔ پہلے سیزن سے اب تک چھ سال کے عرصے میں ’مرزا پور‘ کے صرف تین سیزن آئے ہیں۔

ویب سیریز کو بنانے والے تینوں ہدایت کاروں کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے تو ہر سال اس تخلیق کو پیش کر کے دولت اکٹھی کر لیتے لیکن انہوں نے ہر سیزن کی ہر قسط پر مہینوں کام کیا۔ سکرپٹ پر عرق ریزی کی، مکالمات کے ساتھ ساتھ ایکشن اور لوکیشن پر بہت وقت استعمال کیا گیا، کئی بار تو ایسا ہوا کہ پورا منظر دوبارہ عکس بند کیا گیا۔ کوشش صرف یہی تھی کہ کہیں بھی کسی بھی کردار، منظر نامے یا پھر مکالمے میں جھول نہ ہو۔

ویب سیریز کے پراثر مکالمات

گو ’مرزا پور‘ میں کئی ایسے بھی مکالمات ہیں جوتحریر کی گرفت میں نہیں آ سکتے اور عین ممکن ہے کہ سینسر بورڈ کی زد میں آتے تو قطع و برید کا نشانہ بنتے لیکن چونکہ ویب سیریز ہے تو یہاں تو کھلی چھوٹ ملی ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ ایسے مکالمات ہیں جو کرداروں کو اور زیادہ پراثر بناتے ہیں جیسے گڈو بھیا کا والد صاحب سے یہ کہنا کہ ’آپ ہم کو گھر کی اونرشپ سمجھا رہے ہیں، ہم کو تو پورا شہر لینا ہے۔‘ پھر اسی طرح ’اب چاہے سانپ آکر گھر میں دوستی کر لے، رہتا تو زہریلا ہی ہے نا‘ یا پھر یہ کہ’ اٹیک میں بھی گن، ڈیفنس میں بھی گن، ہم بنائیں گے مرزا پور کو امریکہ۔‘ اسی طرح قالین بھیا کا یہ مکالمہ ’اگر نیتا بننا ہے تو غنڈے پالو، غنڈے مت بنو۔‘ اور منا بھیا کا یہ ڈائیلاگ ’جب قربانی دینے کا ٹائم آئے تو قربانی سپاہی کی دی جاتی ہے، راجا اور راجکمار تو زندہ رہتے ہیں۔‘

پرتشدد ٹریلر پر تنقید

حال ہی میں جب ’مرزا پور تھری‘ کا ٹریلر آیا تو اس میں آپ کو مکالمات کم اور پرتشدد واقعات زیادہ نظر آئیں گے۔ قتل وغارت گری اور خون خرابہ تو ہر فریم میں ہے۔ تبھی فلم پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اس بار ہدایت کاروں نے ضرورت سے زیادہ پرتشدد مناظر رکھے ہیں۔

اس حوالے سے کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ رنبیر کپور کی ’اینیمل‘ کے بعد بیشتر ہدایت کاروں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے بات بے بات پر قتل اور خون کی ندیاں بہاتے ہوئے دکھائیں کیونکہ اسی بنا پر ’اینیمل‘ کو بھی کامیابی ملی تھی، یعنی پرتشدد مناظر پر ہی ہدایت کار تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔

تاہم مرزا پور کی پروڈکشن ٹیم کا اس حوالے سے یہی ردعمل تھا کہ ان کی ویب سیریز جرم کی دنیا کے بے لگام عناصر کی عکاسی کرتی ہے تو ایسا کیسے ممکن ہو کہ صرف مکالمات کا سہارہ لے کر ویب سیریز کی کہانی کو پیش کیا جائے۔

مرزا پور کیا واقعی ایسا ہے؟

انڈین ریاست اتر پردیش کا شہر مرزا پور، ویب سیریز میں دکھائے گئے مرزا پور سے برعکس ہے۔ یہ ایک پرفضا اور پرسکون مقام ہے جہاں کی مثالی اور قدرتی خوبصورتی کا نظارہ کرنے ملکی اور غیر ملکی سیاح رخ کرتے ہیں۔ ویب سیریز میں اسے اس قدر پرتشدد مقام دکھانے پر مقامی آبادی سخت احتجاج کر چکی ہے، جس پر موقف یہی اختیار کیا گیا کہ ویب سیریز کا اترپردیش کے مرزا پور سے بالکل تعلق نہیں بلکہ یہ ایک فرضی شہر دکھایا گیا ہے۔

دسمبر2021 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ’مرزا پور‘ کے خلاف دائر پیٹشن بھی خارج کی، جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ویب سیریز میں مرزا پور کا غلط تشخص اور ساتھ ہی وہاں رہنے والے معزز برہمن خاندان کی منفی عکاسی کی گئی ہے، جس کی وجہ سے ان کی ساکھ متاثر ہوئی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ