نغمہ نگار اور مصنف جاوید اختر نے حال ہی میں ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک سوشل میڈیا صارف کے ساتھ گرما گرم بحث کی جس نے انہیں 'غدار کا بیٹا' قرار دیا گیا تھا۔
اس تنازعہ کا آغاز جاوید اختر کے ایک ہلکے پھلکے ٹوئٹ سے ہوا، جس میں انہوں نے ’اپنی آخری سانس تک‘ خود کو ایک قابل فخر انڈین شہری قرار دیا۔ انہوں نے مزاحیہ انداز میں امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ مماثلت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ان دونوں کے پاس امریکہ کا اگلا صدر بننے کے بالکل برابر امکانات ہیں۔
تاہم معاملات نے اس وقت سنگین موڑ لے لیا جب ایک سوشل میڈیا صارف نے اس پوسٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے جاوید کے والد پر تنقید کی اور ان پر تقسیم ہند میں ملوث ہونے کا الزام لگایا اور انہیں غدار قرار دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے لکھا کہ 'آپ کے والد نے مسلمانوں کے لیے ایک قوم پاکستان بنانے میں اہم کردار ادا کیا، پھر ترقی پسند مصنف کی آڑ میں انہوں نے ہندوستان میں رہنے کا انتخاب کیا۔ آپ غدر کے بیٹے ہیں جنہوں نے ہماری قوم کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا۔ اب آپ کچھ بھی کہتے رہیں لیکن یہ سچ ہے۔‘
جاوید نے ٹرول کو 'مکمل احمق' قرار دیا اور اسے اپنے خاندان کے نسب کے بارے میں ایک مختصر بیان دیا۔ انہوں نے 1857 سے ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں ان کی دیرینہ شمولیت کو اجاگر کیا۔
جاوید نے تفصیل سے بتایا کہ کس طرح ان کے آباؤ اجداد نے قید کا سامنا کیا اور اپنی کوششوں کے لیے کالا پانی (انڈمان کی جیل میں قید) برداشت کی۔ انہوں نے لکھا کہ 'یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ آپ مکمل طور پر جاہل ہیں یا مکمل طور پر بے وقوف ہیں۔ 1857 سے میرا خاندان تحریک آزادی سے جڑا ہوا ہے اور جیلوں اور کالا پانی میں گیا ہے جب غالبا آپ کے باپ دادا انگریز سرکار کے جوتے چاٹ رہے تھے۔‘
جب ایک اور شخص نے دلیل دی کہ ان کے آباؤ اجداد نے مغل حکمرانی کے دوبارہ قیام کے لیے جدوجہد کی تو معروف مصنف نے جواب دیا، ’میرے عظیم دادا فضل الحق خیرآبادی کو 1859 میں کولکتہ سے آگ کی ملکہ نامی بحری جہاز کے ذریعے انڈمان بھیجا گیا تھا۔ وہاں انہوں نے ایک کتاب ’باغی ہندوستان‘ لکھی۔ اب اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ ان کی قبر انڈمان میں ہے۔ اسے گوگل کریں۔‘
جاوید اختر کے والد جان نثار اختر بالی ووڈ کے نغمہ نگار اور اردو شاعر تھے اور ترقی پسند مصنفین کی تحریک کا حصہ تھے۔
جاوید کے پردادا فضل الحق خیرآبادی ہندوستان کی تحریک آزادی کے ایک سرگرم کارکن تھے جنہوں نے برطانوی قبضے کے خلاف مہم چلائی تھی۔ انہیں انڈمان جزائر میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی، جہاں وہ 1864 میں انتقال کرنے سے پہلے 22 ماہ تک قید میں رہے۔