وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے منگل کو کہا کہ ’اس وقت پاکستان کے ڈپازٹ میں 12 ارب ڈالرز موجود ہیں جو تین دوست ممالک سے ملے ہیں، تاہم وزیر اعظم نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ وہ دوست ممالک سے کسی قسم کا قرضہ نہیں مانگیں گے۔‘
سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کا پہلا اجلاس سینیٹر عرفان الحق صدیقی کی صدارت میں پارلیمنٹ میں ہوا، جس میں پاکستان کے خارجی معاملات سے متعلق امور زیر غور آئے۔
کمیٹی میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے پاکستان کے سفارتی تعلقات پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’ہماری کوشش براہ راست سرمایہ کاری اور ایکسپورٹ پر ہے۔ ہماری ترجیح اب ان چیزوں پر مرکوز ہے۔
’اب صرف ایک ہی راستہ ہے وہ برآمدات کا راستہ ہے۔‘
ہمسائیہ ممالک سے تعلقات کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ ’پاکستان اپنے ہمسائے تبدیل نہیں کر سکتا اس لیے بہتر یہی ہے کہ ہمسائیوں سے تعلقات بہتر کیے جائیں۔ پاکستان کی کوشش ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات مثبت ہوں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دو واقعات نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ چائنیز انجینیرز پر حملے ہوئے۔ صرف چین کے شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ صرف چینی شہریوں کو ٹارگٹ کیوں کیا گیا؟ دونوں واقعات میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ملوث ہے، ہمارا افغانستان سے یہی مطالبہ کے ٹی ٹی پی کو نکالے۔‘
وزیر خارجہ نے کہا کہ سی پیک کا منصوبہ دشمنوں سے برداشت نہیں ہو رہا داسو پر ہونے والے حملہ صرف دہشت گرد حملہ نہیں تھا بلکہ وہ پاکستان چین تعلقات پر ضرب لگانے کی کوشش تھی۔
’جلد کابل کا دورہ کروں گا‘
نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بڑھتی ہوئے سرحد پار دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر وہ جلد کابل کا دورہ کریں گے۔
انہوں نے اس حوالے سے بتایا کہ ’میں چند روز بعد افغانستان جاؤں گا۔ افغانستان ہمارا برادر ملک ہے۔‘
پاکستان میں گذشتہ دو سالوں سے دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کے لیے پاکستان سرحد پار سے دہشت گردوں کی آمدورفت کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔
’پاکستان سفارتی طور پر تنہا نہیں ہے‘
کمیٹی کے اجلاس میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے معاملات بہتر ہو رہے ہیں۔
’یہ جو بیانیہ بنایا گیا کہ پاکستان سفارتی سطح پر تنہا ہو چکا ہے یہ واضح کر دوں کہ پاکستان سفارتی طور پر تنہا نہیں ہے۔ حکومت کے پہلے سو دن میں سفارتی سطح پر اعلیٰ سطح کے دورے ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے غزہ پر اپنی ذمہ داری مکمل کی ہے۔ میں نے بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کا واضح نام لے کر ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔‘
’افغانستان کی وجہ سے پاکستان میں پولیو دوبارہ سر اٹھا رہا ہے‘
وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ ’پولیو 2018 میں پاکستان سے ختم ہو گیا تھا لیکن افغانستان سرحد سے آمدورفت کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے علاقوں میں پولیو کیسز دوبارہ منظر عام پر آ رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کی کوششیں جاری
سینیٹر عرفان اللہ کے سوال کے جواب میں وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بتایا کہ عافیہ صدیقی کے لیے پہلے بھی کوشش کی تھی کہ ان کو پاکستان واپس لائیں۔
’جب ہم ن لیگ کے گذشتہ دور حکومت میں امریکہ گئے تھے تو صدر ابامہ سے وزیراعظم نواز شریف نے ذاتی حیثیت میں عافیہ صدیقی کی واپسی کی بات کی تھی لیکن انہوں نے جواب دیا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ صدر ابامہ نے کہا تھا کہ ہماری عدالت نے سزا دی ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔‘
اسحاق ڈار نے کہا کہ ’عافیہ صدیقی نے پہلے ہی بہت تکلیف کاٹ لی ہے۔ جب تک عافیہ صدیقی پاکستان نہیں آتیں، کوشش کرتے رہیں گے۔‘
ایران کی نئی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہیں: سیکریٹری خارجہ
سینیٹ کی کمیٹی میں سیکریٹری خارجہ سائرس قاضی نے کہا کہ ’بدقسمتی سے ایرانی صدر حادثے میں جان سے چلے گئے لیکن ہم ایران کی نئی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہیں، صدر رئیسی کے دورے میں جو معاملات طے پائے تھے وہ کی نئی قیادت کے ساتھ آگے بڑھائے جائیں گے۔‘
سیکریٹری خارجہ نے بتایا کہ ’غزہ کے معاملے پر ہم ہر بین الاقوامی فورم پر ایک ہی موقف اپنائے ہوئے ہیں، فلسطین کی حمایت گذشتہ حکومتوں میں بھی پالیسی کا حصہ تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر خارجہ بیرون ملک دوروں میں یہ یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ نیوکلیئر پاور پلانٹ کے حوالے سے بھی پاکستان ایک تجربہ کار ملک ہے اور اس کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں۔
سینیٹر شیری رحمٰن نے خارجہ پالیسی پر سوالات کیے جس پر پر سیکریٹری خارجہ سائرس قاضی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان جیو پولیٹیکس کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اپنے سے بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات میں پاکستان اپنے مفاد کا تحفظ کیے ہوئے ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان جیسی ریاست کے لیے بہت زیادہ چیلنجز ہیں۔
’فارن سروس اکیڈمی میں اب معاشی سفارت کاری کو ترجیح پر رکھا ہے۔ معاشی سفارت کاری پر بات پہلے سے ہو رہی تھی۔ مشن سے رپورٹ لی جاتی ہے کہ چھ ماہ میں کتنی ملاقاتیں کیں، کیا بات چیت کی اور کتنی ڈیلز مکمل کی ہیں۔‘