آئی ایم ایف سے قرض کے لیے پاکستان کو کیا اصلاحات کرنا ہوں گی؟

معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ نئے طویل المدتی معاہدے کو حتمی شکل دینی ہے، جس کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ ’پاکستان کی تاریخ میں یہ آخری آئی ایم ایف پیکج ہو گا۔’

پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے آئی ایم ایف کے مشن نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں پاکستانی وفد سے 13 مئی 2024 کو اسلام آباد میں بات چیت کی (تصویر: وزارت خزانہ)

معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ نئے طویل المدتی معاہدے کو حتمی شکل دینی ہے۔ اس معاہدے کے حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کہہ چکے ہیں کہ اگر طے پانے والے تمام اہداف حاصل کر لیے گئے تو ’پاکستان کی تاریخ میں یہ آخری آئی ایم ایف پیکج ہو گا۔‘

آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدے کی آخری قسط کے لیے رواں برس اپریل میں واشنگٹن میں مذاکرات ہوئے تھے، جس کے بعد اس قلیل المدتی پیکج کی آخری قسط کی منظوری ملی تھی۔ اسی میٹنگ میں آئی ایم ایف کے ساتھ نئے قرض پروگرام پر بھی بات چیت شروع کی گئی، جس کے بعد مئی کے وسط میں آئی ایم ایف مشن کا وفد پاکستان آیا، جس میں نئے قرض پروگرام پر بات چیت تو ہوئی لیکن مکمل نہ ہو سکی۔

اس کے بعد آئی ایم وفد نے اپنے اعلامیے میں کہا تھا کہ ’آئی ایم ایف مشن اور پاکستانی حکام مذاکرات کا عمل جاری رکھیں گے، جس کا مقصد بات چیت کو حتمی شکل دینا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کو دستیاب معلومات کے مطابق 20 جون سے سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ میں تین دن بجٹ پر بحث ہو گی، جس کے بعد کمیٹی کی رپورٹ سینیٹ کے ایوان میں پیش کی جائے گی۔ پھر سینیٹ اپنی سفارشات قومی اسمبلی کو بھیجے گا اور اس کے بعد قومی اسمبلی میں بجٹ کی منظوری کا عمل شروع ہو جائے گا اور 30 جون سے پہلے پہلے قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد صدر پاکستان اس پر دستخظ کریں گے۔

معیشت اور تجارت سے متعلق امور کی کوریج کرنے والے صحافی شکیل احمد کے مطابق یکم جولائی سے نیا مالی سال شروع ہو جائے گا جس کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ نئے بیل آؤٹ پیکج کے حتمی مذاکرات ہوں گے۔

اس طویل المدتی پروگرام کے خدوخال کیا ہیں اور اس کی منظوری کب تک متوقع ہے، انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے جاننے کی کوشش کی ہے۔

آئی ایم ایف کے نئے بیل آؤٹ پیکج کے لیے شرائط کیا ہیں؟

رواں برس مارچ میں آئی ایم ایف نے نئے طویل المدتی معاہدے کے لیے پانچ شرائط پر مشتمل اعلامیہ جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ’اس نئے پروگرام پر مذاکرات آئندہ مہینوں میں شروع ہوں گے لیکن کچھ اہداف کے لیے پاکستان کو کام کرنا ہو گا۔‘

اس سلسلے میں پہلا ہدف یہ ہے کہ پاکستان کو اپنے خزانے کو مضبوط کرنا ہو گا، جس کے لیے ٹیکس وصولی کے نظام مہیں بہتری لانی ہو گی اور ٹیکس بیس بڑھانا ہو گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسرا ہدف توانائی کے شعبے کی اصلاحات کا رکھا گیا ہے۔ اس حوالے سے آئی ایم ایف کے چار مطالبات ہیں۔ اول یہ کہ بجلی کی ترسیل اور تقسیم کا نظام بہتر بنایا جائے۔ دوم کیپٹو پاور یعنی نجی بجلی گھروں کی طلب کو قومی گرڈ پر منتقل کیا جائے۔ سوم بجلی تقسیم کار کمپنیوں میں اصلاحات لائی جائیں اور چوتھا یہ کہ بجلی کی چوری کا خاتمہ کیا جائے۔

تیسرا اور چوتھا ہدف مہنگائی اور ایکسچینج ریٹ کے حوالے سے ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے اعلامیے میں مہنگائی کو واپس ہدف پر لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایکسچینج ریٹ کو شفاف طریقے سے برقرار رکھا جائے۔

پانچواں ہدف نجی کاروباری سرگرمیوں میں اضافے اور سرکاری ملکیتی اداروں کی نجکاری ہے۔

معاشی امور کے ماہر صحافی شہباز رانا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ٹیکس کی وصولیوں کو بڑھانا آئی ایم ایف کا سب سے بڑا فوکس ہے۔ ٹیکسوں میں جن سیکٹرز کو چھوٹ دی گئی تھی وہ واپس کرنا، توانائی کے شعبے میں ریکوری، گیس و بجلی کے ٹیرف میں اضافہ بھی آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’نئے بیل آؤٹ پیکج کے معاہدے کو ابھی حتمی شکل نہیں دی گئی لیکن لگ یہی رہا ہے کہ بجٹ منظوری کے فوری بعد سٹاف لیول معاہدہ ہو جائے گا۔‘

صحافی شکیل احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جونہی بجٹ منظور ہو گا، اس کے بعد آئی ایم ایف کے نئے پروگرام کا سٹاف لیول معاہدہ منظور ہونے کی توقع ہے، کیونکہ مالی سال 25-2024 کا جو بجٹ بنایا گیا ہے وہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بنایا گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے ٹیکس بڑھانے کا کہا تھا، جس کے بعد حکومت نے نئے بجٹ میں 12 ہزار  970 ارب روپے کا ہدف رکھا ہے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں اس مالی سال کے بجٹ میں 3800 ارب روپے اضافی ٹیکس وصول کیے جائیں گے۔‘

بقول شکیل احمد: ’آئی ایم ایف اب جائزہ لے گا کہ بجٹ ان کی شرائط کے مطابق ہے یا نہیں، اسی کے بعد سٹاف لیول معاہدے پر پیش رفت ہو گی۔‘

12 جون کو پیش کیے گئے مالی سال 25-2024 کے وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر بھاری ٹیکسوں کے علاوہ دیگر شعبوں پر بھی عائد ٹیکسوں میں اضافے کی تجاویز پیش کی گئیں، جسے ناقدین نے ’ٹیکس بجٹ‘ قرار دیا ہے۔

اس حوالے سے 18 جون کو اپنے ایک بیان میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا تھا کہ ’ہسپتال اور سکول تو خیرات سے چل سکتے ہیں لیکن پورے ملک کا نظام ٹیکس سے ہی چلتا ہے۔‘

دوسری جانب وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے گذشتہ ماہ ایک بیان میں اس امید کا اظہار کیا تھا کہ رواں سال جون یا جولائی کے اوائل تک آئی ایم ایف سے نئے قرض پر سٹاف لیول معاہدہ طے پا سکتا ہے، تاہم انہوں نے واضح طور پر یہ نہیں بتایا تھا کہ نئے قرض کا حجم اور مدت کیا ہو گی۔

وزیرخزانہ کہہ چکے ہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طویل مدتی قرض کے نئے پروگرام پر بات چیت شروع کرنے کی دو وجوہات ہیں، جن میں سے ایک معاشی استحکام اور دوسرا اقتصادی اصلاحات کے ایجنڈے پر عمل درآمد ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت