پنجاب میں میٹرک امتحانات 2024 کے سالانہ امتحانات کے نتائج کے مطابق پرائیویٹ سکولوں کے ساتھ دینی مدارس کے طلبہ نے اس بار اعلیٰ پوزیشنز لیں، جس کے بارے میں طلبا اور اساتذہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہ اعزاز حاصل کیا۔
صوبے بھر کے سات تعلیمی بورڈز میں آٹھ لاکھ کے قریب طلبہ نے امتحانات میں حصہ لیا۔ اس بار گریڈ سسٹم ختم کر دیا گیا ہے لیکن کامیابی کا تناسب کم از کم 69 فیصد رہا۔
پنجاب حکومت کی جانب سے پوزیشن ہولڈرز میں انعامی رقم کی تقسیم کا عمل بھی دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
اس بار ملتان اور بہاولپور بورڈ میں دینی مدارس کے کل چار طلبہ نے مختلف پوزیشنز حاصل کی ہیں۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک میں دینی مدارس کے طلبہ کو بھی حکومت اسی طرح تعلیمی سہولیات فراہم کر رہی ہے جس طرح سرکاری سکولوں یا پرائیوٹ سکولوں میں طلبہ کو میسر ہوتی ہیں۔
اس حوالے سے وفاق المدارس کے جنرل سکریٹری قاری حنیف جالندھری کا کہنا ہے کہ کوئی بھی حکومت آتی ہے وہ صرف دعوے کرتی ہے مگر عملی طور پر مدارس کے بچے اپنی مدد آپ کے تحت دوہری تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
’دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم میں بھی محنت سے پوزیشنز حاصل کر رہے ہیں۔ ان کے لیے بجٹ میں فنڈز رکھے جاتے ہیں نہ ہی اساتذہ فراہم کیے جاتے ہیں۔‘
اس معاملے پر موقف جاننے کے لیے صوبائی وزیر تعلیم پنجاب سکندر حیات سے رابطہ کیا گیا لیکن ان سے رابطہ نہ ہو سکا۔
انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے سربراہ رسول بخش رئیس نے کہا کہ ’مدارس اپنی مدد آپ کے تحت بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں۔ لیکن حکومتوں کی جانب سے اس طرف توجہ نہ دینا ان طلبہ کی حق تلفی ہے۔ حالانکہ آئین پاکستان تمام شہریوں کو یکساں تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کا پابند کرتا ہے۔ مدارس کے بچے دوہری محنت سے تعلیم کا حق حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔‘
مدارس کے بچوں کی پوزیشنز
میٹرک کے سالانہ نتائج میں تعلیمی بورڈ ملتان سے آرٹس گروپ طلبا میں الخیر پبلک ہائی سکول شالیمار کالونی بوسن روڈ ملتان کے منصب ریاض ولد محمد ریاض نے 1148 نمبر لے کر پہلی، کوارٹر نمبر 20 جامعہ حنفیہ آئی بلاک بورے والا کے محمد زوہیب اصغر ولد اصغر علی نے 1116 نمبر لے کر دوسری اور کوارٹر نمبر 24 جامعہ حنفیہ آئی بلاک بورے والا کے محمود احمد ولد محمد انور نے 1113 نمبر لے کر تیسری پوزیشن حاصل کی۔
اسی طرح بہاولپور تعلیمی بورڈ سے مدرسہ بنات صادق آباد کی عرفہ تقی نے سائنس گروپ میں 1186 نمبر لے کر دوسری پوزیشن اپنے نام کر لی۔
عرفہ تقی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے مدرسے میں قرآن پاک کی تعلیم کے ساتھ ٹیکسٹ بورڈ کی کتابیں بھی پڑھائی جاتی ہیں۔ البتہ ہمیں اس طرح لیبارٹریز یا اساتذہ کی سہولت میسر نہیں جس طرح بڑے سکولوں میں ہوتی ہیں۔ سائنس مضامین کی لیبارٹریز کی سہولت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن میں نے دن رات محنت کر کے پوزیشن حاصل کی ہے جس میں میرے والدین اور مدرسے کے معلمین کا اہم کردار ہے۔‘
پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہمارے ملک میں تمام مسالک کے ہزاروں مدارس میں لاکھوں بچے زیر تعلیم ہیں۔ جو دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی بھرپور طریقے سے حاصل کر رہے ہیں۔ حکومت کے مدارس کے ساتھ تعاون میں اضافے سے ان بچوں کی تعلیم مزید بہتر ہوسکتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مدارس اپنی مدد آپ کے تحت نہ صرف دینی تعلیم کے فروغ میں مصروف ہیں بلکہ بچوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے دیگر مضامین کی تعلیم بھی فراہم کر رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ مدارس کو تعلیمی فنڈز فراہم کرے۔‘
یکساں نظام تعلیم اور مدارس کا بجٹ
وفاق المدارس کے جنرل سکریٹری قاری حنیف جالندھری کے مطابق ’گذشتہ حکومت ہو یا موجودہ کوئی بھی مدارس کے بچوں کو یکساں تعلیم کا حق دینے میں سنجیدہ نہیں۔ پہلے شہباز شریف پنجاب میں یکساں نظام تعلیم لانا چاہتے تھے۔ لیکن نجی تعلیمی اداروں نے یکساں نصابِ تعلیم کو تسلیم نہ کیا پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) حکومت نے 2021 کے یومِ آزادی کے موقعے پر ابتدائی جماعتوں سے یکساں نظامِ تعلیم نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر ابھی تک عمل نہیں ہوسکا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قاری حنیف جالندھری کے بقول: ’کوئی بھی حکومت مدارس کو تعلیمی سہولیات یا فنڈز فراہم کرنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی۔ ہم اپنے مدارس کو چندے سے چلاتے ہیں ہم نے کئی مدارس میں سائنس لیبارٹریز بھی فراہم کر رکھی ہیں۔
وفاق المدارس کے تحت چلنے والے مدارس میں سائنس ٹیچرز کی سہولیات بھی موجود ہیں۔
’ہمارے بچے ہر سال نہ صرف میٹرک بلکہ انٹر، یونیورسٹی کی سطح پر بھی مختلف مضامین میں پوزیشنز لیتے ہیں۔‘
قاری حنیف جالندھری کے بقول، ’پاکستان میں ہر حکومت کا دینی تعلیم اور عصری تعلیم دونوں کو فروغ دینا لازمی ہے۔ مگر افسوسناک بات یہ ہے کہ نہ دینی تعلیم پر کسی کی توجہ ہے اور نہ ہی مدرسوں کے بچوں کو بڑے تعلیمی ادروں کی طرح سہولیات میسر ہیں وہ پھر بھی دونوں طرف نمایاں کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔‘
انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز کے سربراہ رسول بخش رئیس نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں کئی مدارس میں گیا ہوں وہاں بڑی تعداد میں بچے دینی تعلیم کے ساتھ دیگر مضامین کی تعلیم بھی بخوبی حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن وہ بھیک میں ملنے والے چندے سے اپنا نظام چلا رہے ہیں اور حکومت ان کی سرپرستی کرنے کو تیار نہیں۔
’لیپ ٹاپ سکیم آٹے کے تھیلوں پر تصاویر جیسے اخراجات تو کر دیے جاتے ہیں لیکن مدارس میں بچوں کی تعلیم کا کوئی منصوبہ نہیں بن سکا۔‘
انہوں نے کہا کہ’اندرون سندھ سمیت بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کئی سکولوإ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے لیے بنائی گئی عمارتیں خالی پڑی ہیں۔ اگر ان میں مدارس کو ہی تعلیمی نظام چلانے کی اجازت دے دی جائے تو کافی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔‘
یکساں نظام تعلیم پی ٹی آئی حکومت کا شروع سے ہی انتخابی منشور رہا ہے لیکن جب 2019 میں اس نظام کو لاگو کرنے کے اقدامات شروع ہوئے تو کئی سوال اٹھنے لگے۔
وہ تعلیمی ادارے جو بیرونِ ممالک رجسٹرڈ ہیں، وہ ہمارے یکساں نظام تعلیم کو کس طرح تسلیم کریں گے؟
نئے نصاب کے مطابق طریقہ امتحان کیا ہوگا؟ کیا انگلش میڈیم تمام سکول بند کر دیے جائیں گے؟ سائنسی مضامین کی تدریس کیسے ہوگی؟ علاقائی زبانوں کے کورسز کا کیا بنے گا؟
یہ تمام سوالات آج بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔