انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ کو غیر آئینی قرار دینے کے عدالتی فیصلہ سے ایک نیا تنازع پیدا ہو گیا ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے 21 مارچ کو مدرسوں سے متعلق اترپردیش میں 2004 کا قانون، جس کے تحت مدرسوں کو گرانٹ اور مالی مدد دینے کے لیے ایک بورڈ کی تشکیل ہوئی تھی، اسے منسوخ کرتے ہوئے کہا کہ مدارس سے متعلق قانون سے آئینی سیکولرازم کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
اسی کے تحت عدالت نے بورڈ کے مدرسوں میں زیر تعلیم چھ سال سے 14 سال تک کی عمر کے طلبا و طالبات کو سکولوں میں داخل کرنے کی ہدایت دی، جس کے فوراً بعد اترپردیش کی بی جے پی حکومت نے فیصلے پر عملدرآمد کا اعلان کر دیا۔
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جو مدارس اور مسلم اداروں کے خلاف بیانات دیتے رہتے ہیں، نے عدالت کے فیصلے کی ستائش کی اور کہا کہ ان کی حکومت اس فیصلے کو مرحلہ وار طریقے سے نافذ کرے گی۔
عدالت کے اس فیصلہ نے نہ صرف بورڈ کے تحت زیر تعلیم 20 لاکھ سے زائد طلبہ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، بلکہ 10 ہزار اساتذہ بے روزگار ہونے کی گگار میں کھڑے ہیں۔ اسی کے ساتھ سینکڑوں مدارس کے بند ہونے کے اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں۔
مدرسہ تعلیمی بورڈ کے جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق اس اقدام سے 25 ہزار مدارس کے 27 لاکھ طلبہ اور تقریباً 10 ہزار اساتذہ متاثر ہوں گے۔
مدرسوں کے خلاف عدالت کے اس نئے فیصلے اور حکومت کی جانب سے اس پر عمل درآمد کے اعلان نے مسلم حلقوں میں تشویش کی لہر پھیلا دی ہے۔ مسلمانوں کے سماجی اور تعلیمی حلقوں کی جانب سے اس فیصلے پر مختلف ردعمل ظاہر کیے جارہے ہیں۔
اترپردیش مدرسہ ٹیچرز ایسوسی ایشن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ دراصل حکومت کے ذریعے پیش کردہ غلط ثبوت و شواہد کی بنا پر آیا ہے۔ انہوں نے عدالت کے اس فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینیئر نے اس بارے میں انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جس ایکٹ کو غیر آئینی قرار دیا گیا ہے اس کے تحت بس کچھ ہی مدرسوں کو حکومت گرانٹ دیتی رہی ہے، وہ صرف جدید تعلیم کے حصول کے لیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی یہ کوشش تھی کہ مدرسوں کو ماڈرنائز کیا جائے اور طلبہ کو عصری تعلیم دی جائے، بس اسی مقصد کے لیے حکومت گرانٹ دیتی تھی، جبکہ مدرسوں کے پاس اپنا انفراسٹکچر ہوتا ہے، حکومت مدرسے نہیں بناتی بلکہ بنے بنائے مدرسوں میں تھوڑی امداد عصری تعلیم کے لیے ہوئی تھی۔‘
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’جب مقصد صرف ماڈرن تعلیم دینے میں مدد کرنا تھا، تو یہ بات کہاں سے آگئی کہ حکومت مذہبی تعلیم کے لیے پیسے دے رہی ہے۔‘
پروفیسر سلیم انجینیئر کا مزید کہنا ہے کہ ’جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں جائے گا اور درست احوال و شواہد رکھے جائیں گے تو یہ فیصلہ پلٹ دیا جائے گا۔‘ تاہم انہوں نے اس فیصلے کی آڑ میں مدرسوں کے خلاف حکومت کی کارروائی کا اندیشہ بھی ظاہر کیا۔
جسٹس وویک چودھری اور جسٹس سوربھ ودیارتھی کے لکھنؤ بینچ نے مدرسہ بورڈ کے خلاف دائر ایک درخواست پر سماعت کرتے ہوئے 21 مارچ کو مذکورہ فیصلہ دیا تھا، جس کے مطابق ریاستی مدرسہ بورڈ ایکٹ کو سیکولرزم کے منافی اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یوجی سی) کے ضوابط کے مخالف قرار دیا گیا۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے، جب انڈیا میں عام انتخابات کا اعلان ہوچکا ہے۔ ایسے حالات میں یہ اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں کہ اس فیصلہ کے سیاسی اثرات مرتب ہوں گے۔