کیا آپ بھی طافو کے شکوے کا برا مان گئے تھے؟

گذشتہ دنوں طلبہ نواز طافو نے مہدی حسن کے بارے میں کہہ دیا کہ ان کی رینج کم ہے، اس بات پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا ہے۔

استاد طافو خاں سو سے زیادہ فلموں کی موسیقی ترتیب دے چکے ہیں (استاد طافو فیس بک پیج)

طافو پہ لوگ ایسے تاؤ کھائے بیٹھے ہیں جیسے پہلی بار کسی فنکار نے ٹیڑھی، ترچھی یا الٹی بات کی ہو۔ بھئی ایک ہی شعبے سے وابستہ افراد کے درمیان رقابت معمول کی بات ہے۔ فنکاروں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے اتنی ہی جگہ ہوتی ہے جتنی رشتہ داروں کی ایک دوسرے کے لیے۔

آشا بھوسلے لتا جی کی سگی بہن ہیں۔ ان کے راستے میں سب سے زیادہ مشکلات کس نے پیدا کیں؟ لتا نے۔ سٹیج پر دونوں ایک دوسرے کو جس سویٹ انداز سے ملتی تھیں دلوں میں اس کی پرچھائیاں تک نہ تھیں۔ بس دنیا داری نبھائی ورنہ نجی محفلوں میں ایک دوسرے کو کبھی معاف نہ کیا۔

دونوں کی رقابت کا احوال بیان کرتے ہوئے او پی نیر نے ایک انٹرویو میں خوب منظر کشی کی ہے۔ ’لتا اور آشا بمبئی پدھار روڈ پہ آمنے سامنے کے فلیٹ میں رہتی تھیں۔ دونوں کے پاس گھر کے کام کاج کے لیے ایک ہی ماسی تھی، جس کی اصل زمہ داری روزانہ آشا کو جا کر بتانا تھا کہ آج آپ کی بڑی بہن نے کیا زبردست گیت ریکارڈ کروایا ہے۔ یہ سنتے ہی آشا کا رنگ اڑ جاتا۔ ایسا تھا لتا فوبیا کہ مجھے کئی مہینے آشا کو یہ سمجھانے میں لگ گئے کہ اس کا ووکل ٹیکسچر اس کی بہن سے بالکل الگ ہے۔‘

1998 کی انتہائی بری فلم ’ساز‘ دونوں کی زندگی اور رقابت کے گرد گھومتی ہے جس میں دیکھنے کو کچھ نہیں ہے۔

طلعت محمود انتہائی شریف انسان تھے مگر تھے تو انسان ہی۔ ایک بار رفیع کے بارے میں کہا ’اے ہے، یہ پنجابی غزل کیسے گائے گا۔‘

طلعت کو یقین تھا کہ بطور پلے بیک سنگر رفیع کبھی ان کی جگہ نہیں لے سکتے۔

طلعت کے بارے طافو کا کہنا ہے کہ اس کی آواز کا ’کمبن وارا نئیں جاندا (لرزش نہیں جاتی)۔‘ جب طلعت نے اپنے کیرئیر کا آغاز کیا تو بہت سے موسیقاروں نے انہیں نصیحت کی کہ اس لرزش پہ قابو پا لو۔

ایک دن طلعت انل بسواس کا گیت ریکارڈ کروانے آئے تو ان کی آواز ایک دم فلیٹ۔ انل دا نے کہا ’یہ تمہاری آواز کو کیا ہوا؟‘

طلعت نے بڑے فخر سے کہا، ’میں نے اپنی کمزوری پہ قابو پا لیا ہے۔‘ انل بسواس نے کہا، ’نکلو اور تب واپس آنا جب پہلے جیسی لرزش موجود ہو۔‘

 غزل گائیکی میں مہدی حسن نے کسی کو اپنا آئیڈیل مانا تو وہ طلعت محمود ہیں۔ انڈیا کے ایک دورے پہ مہدی حسن نے بھری محفل میں تسلیم کیا کہ وہ شروع میں طلعت محمود کی غزلیں گایا کرتے تھے۔

طلعت اور مہدی حسن کی آواز میں فطری طور پر رینج کم ہے۔ دونوں کا فن نچلے سروں میں نکھرتا ہے۔ طلعت کی آواز میں یوٹیوب پر موجود گیت سنیں، ’چل اڑ جا رے پنچھی۔‘ اب یہی گیت رفیع کی آواز میں سنیں۔ محدود رینج کا فرق واضح ہو جائے گا۔ لیکن جو گیت طلعت کی رینج میں آ گیا اسے کوئی دوسرا چھو تک نہیں سکتا۔

مشہور ہے مہدی صاحب کو ایک گانا گانے میں مشکل پیش آ رہی تھی، ماسٹر عبداللہ نے برجستہ کہا ’بھگوان ہن تگڑا ہو۔‘

مہدی حسن اور طلعت محمود متنوع نہ سہی لیکن دونوں نے اپنی الگ کائنات تخلیق کی اور اس کے بادشاہ ہیں۔ طلعت محمود کا کیرئیر بہت مختصر رہا، مہدی حسن نے غیر فلمی غزلوں کی پوری کہکشاں ترتیب دی۔ یہ کہنا فضول بات ہے کہ ’ان کے گلے میں بھگوان نہیں بھگوان کا چپڑاسی بولتا ہے۔‘

مہدی صاحب اور بھگوان والی بات پہ بہت خوبصورت جگت ماسٹر عبداللہ کی ہے۔ مشہور ہے مہدی صاحب کو ایک گانا گانے میں مشکل پیش آ رہی تھی، ماسٹر عبداللہ نے برجستہ کہا ’بھگوان ہن تگڑا ہو۔‘ ماسٹر عبداللہ کی دھن واقعی گلوکار کا امتحان ہوتی تھی۔

اگر آپ دیکھیں تو مہدی حسن کو پاکستان اور بالخصوص انڈیا میں بہت پذیرائی ملی۔ ذاکر حسین پوری دنیا میں طبلے کی پہچان بنے۔ طافو کی مہارت اپنی جگہ لیکن شہرت و مقبولیت نے انہیں خاص لفٹ نہیں کروائی۔ ایسے میں اگر ذرا حسد آ گیا تو خیر ہے، ایسا ہنگامہ بھی کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن طافو کی محرومی اور شکست خوردہ طبیعت ایک پس منظر رکھتی ہے۔

میاں قادر بخش پنجاب گھرانے کے بانی تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کے تین شاگردوں نے بہت نام کمایا: ذاکر حسین کے والد اللہ رکھا خان، شوکت حسین اور الطاف حسین طافو۔ اللہ رکھا اور ذاکر حسین دنیا بھر میں مشہور ہوئے اور آج طبلے کا ذکر آتے ہی ذہن میں ان کا نام آتا ہے۔

شوکت حسین صاحب ایک خاموش طبع اور بے نیاز سی شخصیت کے مالک تھے۔ البتہ طبلے پر ان کی مہارت کسی سے کیا کم ہو گی۔ انہیں میاں شوکت حسین کے نام سے شہرت ملی۔ موسیقی کی خاص اصطلاح میں ’میاں‘ وہ شخص ہوتا ہے جس کا چیلنج قبول کرنے کے لیے کوئی دوسرا معاصر تیار نہ ہو، گویا اپنے وقت کا سب سے بڑا فنکار۔ شوکت صاحب کے شاگرد ہوئے طاری خان جنہیں بھرپور پذیرائی ملی۔

ستم ظریفی دیکھیں کہ شوکت صاحب کے بعد تمغہ حسن کارکردگی بھی طاری خان لے گیا۔ یعنی ان کے استاد بھائی ہی نہیں استاد بھائیوں کے شاگرد (ذاکر حسین اور طاری) بھی شہرت کی دوڑ میں طافو سے میلوں آگے نکل گئے۔ اب خود سوچیں طافو کے دل پر کیا گزری ہو گی۔

طافو کے طبلے میں روح داری یا کیفیت کی شدید کمی کا شکوہ اپنی جگہ۔ یہ بات بھی زیادہ غلط نہیں کہ وہ محض کرافٹ ہیں، ان کے طبلے کے ساتھ آپ کے دل کی دل دھڑکن اوپر نیچے نہیں ہوتی۔ لیکن بطور انسان ان کے اندر کی تلخی کو سمجھنے کی کوشش کیجیے، وہ بلاجواز نہیں ہے۔

وہ اپنے منہ سے جتنا مرضی کہتے رہیں کہ وہ روایتی قاعدوں کے علاؤہ بھی بہت کچھ بجا سکتے ہیں جو ذاکر حسین کے بس کی بات نہیں، ان کا یہ دعویٰ بھی درست کہ انہوں نے طبلے میں نئے بول، نئے قاعدے متعارف کروائے مگر کیفیت کی کمی کا کوئی متبادل نہیں۔

کلاسیکی موسیقی پہ مہارت رکھنے والے کیسے کیسے نابغے ہو گزرے، گلہ ایسا تیار کہ گھنٹوں جس راگ سے جس انداز میں چاہیں کھیلتے رہیں لیکن آواز میں تاثیر نہ پیدا ہو سکی۔ یہی معاملہ ساز بجانے والوں کا ہے۔ شاید دیگر فنون میں بھی ایسا ہی ہے۔ کچھ شاعروں کی زبان دانی بس لفظوں کے اینٹ گارے تک محدود رہ جاتی ہے۔

طافو کی طبلہ نوازی اور فلموں میں دی گئی موسیقی انہیں مجید امجد کے ’آٹو گراف‘ والے احساس کمتری سے نہ نکال سکی۔ کیا کریں ہیں تو وہ بھی انسان۔ دراصل اپنے پورے انٹرویو میں انہوں نے محض ایک بات کی ہے:

میں اجنبی میں بے نشاں
میں پا بہ گل
نہ رفعت مقام ہے نہ شہرت دوام ہے

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ