میانمار میں لاپتہ حیدر آباد کے تین نوجوانوں کو بیچا نہیں گیا: پاکستانی سفارت خانہ

میانمار میں پاکستانی سفارت خانے کے اسسٹنٹ قونصلر جنرل نے بتایا کہ نوکری کے جھانسے میں آکر غیر قانونی کمپنی کے پاس کام کرنے والے ان تین نوجوانوں کو جلد بازیاب کروا کر وطن واپس بھیج دیا جائے گا۔

میانمار کی بارڈر گارڈ پولیس کے اہلکار 15 فروری 2024 کو بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر آنے والے افراد کو بحری جہازوں کے ذریعے ان کے ملک واپس بھیج رہے ہیں (اے ایف پی)

میانمار (برما) کے شہر یانگون میں پاکستانی سفارت خانے نے ہفتے کو ایشیا کے اس جنوب مشرقی ملک میں پاکستانی شہر حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے تین نوجوانوں کو جلد بازیاب کروا کر وطن واپس بھجوانے کی یقین دہانی کروائی ہے۔

میانمار کے شہر یانگون میں پاکستانی سفارت خانے کے اسسٹنٹ قونصلر علی شیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’حیدرآباد کے ان تین نوجوانوں والا اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقع نہیں۔

’ہم نے ان کی طرح نوکری کے جھانسے میں آکر غیر قانونی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے والے 14 پاکستانی نوجوانوں کو حال ہی میں بازیاب کروا کر واپس پاکستان بھیجوایا ہے۔‘

انہوں نے یقین دلایا کہ ’حیدرآباد کے ان تینوں نوجوانوں کو بھی جلد بازیاب کروا کر وطن واپس بھیج دیا جائے گا۔‘

تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ قانونی پیچیدگیوں کے باعث ان کی بازیابی میں تاخیر ہو رہی ہے۔

نوکری کی غرض سے میانمار (برما) جانے والے حیدر آباد کے تین دوست 20 فروری کو تھائی لینڈ کے راستے میانمار گئے تھے۔

ان نوجوانوں میں حیدرآباد میں قریشی کالونی کے رہائشی 25 سالہ فراز خان، ہالہ نالہ کے 23 سالہ کاشف حسین اور پھلہیلی کے 25 سالہ شیروز خان شامل ہیں۔

نوجوانوں کے اہل خانہ کے مطابق ابتدائی دو ہفتوں تک ان نوجوانوں کا اپنے اپنے اہل خانہ سے رابطہ رہا، جو بعد میں ختم ہو گیا۔

لاپتہ نوجوان فراز خان کے بھائی عرفان خان کا انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’چند روز قبل ایک نئے نمبر سے میرے بھائی نے فون کرکے بتایا کہ ان تینوں کو ایک فرم کے ساتھ نوکری کا زبردستی معاہدہ کروایا گیا اور انہیں قید میں رکھ کر کام لیا جا رہا ہے۔ انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔‘

اس فون کال کے بعد نوجوانوں کے اہل خانہ نے میانمار میں پاکستانی سفارت خانے کو خط لکھ کر ان کی جلد بازیابی کی استدعا کی۔

عرفان خان کا کہنا تھا کہ ان کے چھوٹے بھائی (فراز) اور ان کے دو دوستوں کو کسی نے تھائی لینڈ میں نوکری کا جھانسہ دیا تھا۔

’ہم نے سوچا بھائی بیرون ملک نوکری پر لگ جائے گا تو کچھ آمدنی ہو گی اور گھر کے خراب حالات بہتر ہوں گے۔

’بھائی کو تھائی لینڈ بھیجنے کے لیے رقم کا بندوبست والدہ کے زیورات فروخت کر کے اور کچھ ادھار لے کر کیا گیا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ تھائی لینڈ میں ایک پاکستانی شہری کے حوالے سے ایک چینی باشندے نے تینوں دوستوں کو سرحد پار میانمار پہنچایا۔

’انہیں میانمار کے اس حصے میں پہنچایا گیا جو باغیوں کے قبضے میں ہے۔ وہاں ان کا ایک کمپنی کے ساتھ معاہدہ کروانے کی کوشش کی گئی، جس کے تحت وہ ڈیڑھ سال نوکری کرنے کے پابند ہوتے۔

’انکار پر تینوں دوستوں سے معاہدے پر زبردستی دستخط لیے گئے اور انہیں قید خانے میں ڈال دیا گیا۔‘

عرفان خان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد ہمارا رابطہ میرے بھائی اور ان کے دوستوں کے ساتھ منقطع ہو گیا۔‘

انہوں نے بتایا کہ چند روز قبل ایک نئے نمبر سے ان کے بھائی نے فون کرکے بتایا کہ تینوں کو قید میں رکھ کر کام لیا جا رہا ہے اور ان پر تشدد بھی کیا جاتا ہے۔

عرفان کا دعویٰ ہے کہ ان کے بھائی نے میانمار میں اس کمپنی کے اہلکاروں کی مختلف نوجوانوں پر تشدد کی ویڈیوز بھی بھیجیں، جو بہت وحشت ناک ہیں۔

یانگون میں پاکستانی سفارت خانے کے اسسٹنٹ قونصلر جنرل علی شیر کے مطابق کئی سالوں سے جاری جنگ سے برما کے کئی علاقے متاثر ہوئے ہیں، جب کہ تھائی سرحد کے قریبی علاقوں خصوصاً کارن اور شین ریاستوں میں مسلسل جنگی حالات ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہ علاقے مختلف نسلی باغی مسلح گروہوں کے قبضے میں ہیں اور وہاں میانمار حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔‘

علی شیر کا کہنا تھا کہ باغیوں کے زیر انتظام علاقوں میں پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا سے نوجوانوں کو دھوکے سے لایا جاتا ہے اور ان سے آن لائن غیر قانونی کام کروائے جاتے ہیں۔

علی شیر نے بتایا کہ ان غیر قانونی آن لائن کمپنیوں کے ایجنٹس برما کے علاوہ تھائی لینڈ اور پاکستان میں بھی موجود ہیں، جو نوجوانوں کو نوکری کا جھانسا دے کر یہاں بھیجتے ہیں۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں کا میانمار حکومت کے زیر کنٹرول نہ ہونے اور لاپتہ افراد کا غیر قانونی کام کرنے والی کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں کے باعث ان کی بازیابی میں قانونی پیچیدگیاں درپیش ہوتی ہیں۔

’تاہم پاکستانی سفارت خانہ کوشش کر رہا ہے کہ انہیں جلد از جلد بازیاب کروایا جائے۔‘

معاہدے کی شرائط 

انڈپینڈنٹ اردو کو ملنے والے معاہدے کی کاپی کے مطابق حیدرآباد کے ان تینوں نوجوانوں نے برما کے ’یانگ کوائن‘ گروپ کے ساتھ معاہدہ کیا، جو ایک سفید سادہ کاغذ پر ہے اور اس پر سرخ رنگ کی سیاہی سے انگوٹھے کے دو نشان لگا کر ملازمین سے دستخط کروائے گئے ہیں۔

معاہدے پر کمپنی کی جانب سے کسی کے دستخط یا نشان انگوٹھا موجود نہیں۔

معاہدے میں درج شرائط کے مطابق ملازم کو ماہانہ تنخواہ 150 امریکی ڈالر ہو گی اور اچھی کارکردگی پر اس میں چھ ماہ بعد 200 ڈالر اور سال بعد 600 ڈالر کا اضافہ ممکن ہو گا۔

’ملازمین کو ہفتے میں آدھے دن کی چھٹی ملے گی اور ڈیڑھ سال سے قبل استفعے کی صورت میں ہر ملازم کمپنی کو آٹھ ہزار امریکی ڈالر اور جتنے اخراجات کی مد میں 1500 سے 2000 ڈالر فی مہینہ کے حساب سے ادا کرنا ہوں گے۔‘

شرائط کے مطابق ملازم کو رہائش کے علاوہ دن میں چار کھانے دیے جائیں گے جب کہ انہیں روزانہ 12 گھنٹے کام کرنا ہو گا اور معاہدے کی معیاد کے دوران ایک ملازم کو ڈیڑھ لاکھ امریکی ڈالرز بنانا ہوں گے۔

شرائط میں ملازمین کو ریڈ لائن والے علاقوں کو بغیر اجازت چھونے یا وہاں تصاویر بنانے سے گریز کی ہدایت کی گئی ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا