خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کی پولیس کے مطابق پیر کو چھاونی کی حدود میں طاقتور دھماکہ ہوا ہے جس کے بعد عسکریت پسندوں نے کینٹ کے علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن اسے ناکام بنا دیا گیا۔
اس دھماکے کے بعد پولیس اور سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور کلیئرس آپریشن جاری ہے۔
سرکاری میڈیا (ریڈیو پاکستان) کے مطابق دہشت گردوں نے بنوں کینٹ کی بیرونی دیوار اور سپلائی ڈپو کے درمیان سڑک پر بارود سے بھری گاڑی کو دھماکے سے اڑا کر کینٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ لیکن سکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے عسکریت پسندوں کی کوشش ناکام بنا دیا۔
دھماکے کے بعد متعدد افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ کئی دکانوں اور مکانات کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
مقامی حکام کے مطابق بنوں چھاؤنی کے گیٹ پر دو زوردار دھماکوں کی آواز سنی گئی جس کے بعد شدید فائرنگ کی گئی۔
حافظ گل بہادر عسکریت پسند گروپ سے وابستہ جیش الفرسان محمد کے نصرت وزیرستان نے دعویٰ کیا ہے کہ دھماکہ خیز مواد سے بھری ایک گاڑی گیٹ سے ٹکرائی اور خودکش بمباروں نے احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ تاہم، صورت حال ابھی مکمل واضح نہیں ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے اظہار اللہ کو بنوں پولیس کے ضلعی پولیس سربراہ ضیاالدین نے بتایا کہ ابتدائی تفصیلات کے مطابق دھماکہ بارود سے بھری گاڑی سے کیا گیا جس سے مکانات اور دکانوں کے شیشے ٹوٹ گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا ’شیشے ٹوٹنے سے کچھ افراد زخمی ہوگئے ہیں اور ابھی آپریشن جاری ہے۔‘
بنوں میں اس سے قبل میں بھی سکیورٹی فورسز پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ اگست 2023 میں سکیورٹی فورسز کے قافلے پر خودکش حملے میں کم از کم نو اہلکاروں کی جان گئی جب کہ متعدد زخمی بھی ہوئے۔
پاکستان میں حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی آئی ہے اور ان میں بیشتر کا ہدف سکیورٹی فورسز کے اہلکار رہے ہیں۔
پاکستانی حکومت کے عہدیدار حالیہ مہینوں میں متعدد بیانات میں کہہ چکے ہیں کہ پڑوسی ملک افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی ملک میں دہشت گرد حملوں میں ملوث ہے۔
رواں سال مارچ میں پاکستان کے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک میں زیادہ تر دہشت گردی افغان سرزمین سے ہو رہی ہے جنہیں ’یہاں بھی پناہ گاہیں میسر ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن افغان حکومت کے عہدیداروں کی طرف سے کہا جاتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور پاکستان کو تعاون کی یقین دہانیاں بھی کروائی جاتی رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے رواں ماہ ہی اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) افغانستان میں ’سب سے بڑا دہشت گرد گروپ‘ بن گیا ہے، جسے پاکستان میں سرحد پار سے حملے کرنے کے لیے طالبان حکمرانوں کی حمایت حاصل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ٹی ٹی پی افغانستان میں بڑے پیمانے پر کام کر رہی ہے اور وہاں سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی ہے، جس کے لیے وہ اکثر افغانوں کو استعمال کرتی ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق ایک اندازے کے مطابق عالمی سطح پر نامزد اس شدت پسند گروپ، جسے پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے، کے افغانستان میں چھ سے ساڑھے چھ ہزار جنگجو موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کی دستاویز میں کہا گیا کہ افغان طالبان کی ٹی ٹی پی کی حمایت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ٹی ٹی پی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں نے اسلام آباد اور کابل کے تعلقات کو کشیدہ کر رکھا ہے۔