ہمارے گاؤں کے درمیان مسجد کے عین پچھواڑے ایک مراثی رہتا تھا۔ یہ جگہ بہت کھلی اور ایک طرح کا میدان تھی۔ مسجد اور اس کے درمیان کوئی دیوار نہ تھی۔
ویسے تو یہ خاندانی مراثی تھا مگر لباس اور آن بان مولویوں کی سی رکھتا۔ تھوڑا بہت پڑھا لکھا بھی تھا، معمول کے مطابق مسجد بھی جاتا۔ مولوی صاحب کسی وجہ سے آنے میں تاخیر کر دیتے تو امامت بھی کرا دیتا۔ ان دنوں گھروں میں مرغیاں رکھنے کا رواج عام تھا۔ مراثی کے پاس ایک چھوٹی دُم اور بڑی کلغی والا مرغا تھا اور آس پاس کی تمام مرغیوں کا اکیلا وارث تھا۔
یہ مرغا صبح کاذب کے وقت یوں اذانیں شروع کرتا کہ ختم کرنے کا نام نہ لیتا۔ محلے دار بہت تنگ تھے، انھوں نے کئی بارمراثی کو سمجھایا کہ بھائی اپنے مرغے کو کھا لے یا بیچ دے مگر مراثی کو مرغے سے محبت تھی۔ ویسے بھی انھوں نے کبھی اپنا مرغا نہ کھایا تھا اور نہ ہی دوسروں کے مرغوں پر ترس کھایا تھا۔
ادھر مولوی کے لیے آسانی تھی کہ مرغ اسے صبح کاذب کے وقت جگا دیتا تھا۔ علاوہ ازیں نمازیوں کے ساتھ غیر نمازیوں کو بھی اُٹھا دیتا۔ اور وہ اُس وقت کوئی دوسرا کام نہ کر سکنے کی وجہ سے مسجد کا رخ کر لیتے۔ یوں مولوی صاحب کے پیچھے اچھے خاصے نمازی جمع ہو جاتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے مولوی کو خوشی ہوتی۔ آہستہ آہستہ مرغے کی دلیری بڑھتی گئی۔ اب وہ مراثی کے گھر کے علاوہ ارد گرد کے گھروں کی دیواریں بھی پھلانگنے لگا اور پڑوسیوں کے کوٹھوں پر چڑھ کر ایسی ایسی اذانیں شروع کیں کہ الامان۔ لوگوں کی شکایتوں میں شدت آ گئی۔ مراثی کوآخر اپنے مرغے کو ڈربے میں بند کرنا پڑا لیکن کمبخت نے دانا پانی چھوڑ دیا، مراثی کی محبت پھر غالب آئی، اُسے پھر آزاد کر دیا اور مرغے نے دوبارہ وہی حرکتیں شروع کر دیں بلکہ اس سے بھی آگے ارد گرد کی مرغیوں اور مرغوں کو ٹھونگے مار مار کر زخمی بھی کرتا۔
ایک دفعہ ہوا یوں کے ہمارے گاؤں کے مولوی صاحب کی والدہ اپنے چھوٹے بیٹے کے پاس گجرانوالہ مقیم تھی اور وہ ایک دن مر گئی۔ مولوی صاحب والدہ کی تدفین اور ختم درود کے لیے وہیں چلے گئے اور وہاں اُنھیں کافی دن لگ گئے۔ ان کی غیر حاضری میں مراثی نے نماز سے آگے بڑھ کر نکاح اورجنازے پڑھانے شروع کر دیے۔ جب مولوی واپس آیا تو گاؤں کے حالات بدلے ہوئے دیکھے۔ اکثر ایسا ہوا کہ کبھی کسی غریب کو ضرورت پڑی تو اُس نے مولوی صاحب کی فیس سے ڈرتے ہوئے مراثی ہی کو دعوت دے دی اور اپس سے آدھی فیس پر نکاح پڑھوا لیا اور مولوی کو کان و کان خبر ہی نہ ہوئی کہ مراثی نےفلاں کا نکاح پڑھ دیا ہے یا فلاں کا جنازہ پڑھ آیا ہے اور مرنے والے کی چارپائی اینٹھ لی ہے۔
اس کے سبب مولوی کو اپنی معیشت خطرے میں نظر آئی۔ اس نے ایک دو بار مراثی کو خبردار کیا کہ بھئی اپنی حدود میں رہو مگر اُس کی بات مراثی کی سمجھ میں نہ آئی اور چوری چھپے لوگوں کے ختم درود بھی پڑھنے لگا۔ مولوی صاحب کی آمدنی میں اونچ نیچ شروع ہو گئی اور دونون کے تعلقات میں سرد مہری آ گئی۔
اس کا الٹ اثر یہ ہوا کہ مراثی نے کھل کھیلنا شروع کر دیا اور گاؤں کے معززین کو اپروچ بھی کرنے لگا کہ ’بھائی لوگو، مولوی کو جتنے پیسے دیتے ہو میں ان سے آدھے میں وہی کام کر دیا کروں گا۔ اس کی چھٹی کراؤ۔‘
یہ سب باتیں مولوی صاحب تک پہنچ رہی تھیں۔ آخر ایک دن مولوی صاحب نے فیصلہ کر لیا اور جمعے کا پورا خطبہ مرغے کی نجاست پر دے ڈالا۔ جمعہ کے خطبے میں مولوی نے فتویٰ دے دیا کہ جس گھر میں چھوٹی دُم اور بڑی کلغی والا مُرغا ہو، وہ گھر نجس ہوتا ہے اور گھر کا مالک منحوس ہوتا ہے۔‘
اس کی دلیل مولوی نے بڑی بھاری دی: ’جب حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینکا جا رہا تھا تو چھوٹی دم اور بڑی کلغی والے مرغے نے اذانیں دے دے کر لوگوں کو جمع کیا تھا اور کہا تھا کہ ابراہیم کو جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ چنانچہ یہ مرغا بھی ٹھیک نہیں ہے اسلام دشمن ہے اور مرغے کے مالک کے پیچھے جتنی نمازیں پڑھیں، جتنے جنازے پڑھے ہیں سب فسق ہو گئے ہیں۔ اُن کی تجدید کرنی پڑے گی علاوہ ازیں اگرمرغے کے مالک کے علاوہ کوئی دوسرا شخص ایسا مُرغا ذبح کر کے کھائے تو ایک حج کا ثواب ملتا ہے۔ لیکن ایسا مرغا جس نے ایک بار اپنے گھر میں رکھ لیا وہ مرتے دم تک پاک نہیں ہو سکتا۔‘
بس یہ خطبہ دینا تھا کہ لوگوں نے اُسی وقت مراثی کو اگلی صف سے اُٹھا کر سب سے پیچھے والی اکیلی صف میں کھڑا کر دیا۔ جمعے کی نماز شودرانہ پڑھ کر گھر میں پہنچا ہی تھا کہ مراثن نے خبر دی، ’ہمارا مرغا پڑوسی کچھ ہی دیر پہلے پکڑ کر لے گئے ہیں۔‘ مراثی جب بھاگ کر پڑوس میں گیا تو اتنے میں وہ حج کا ثواب حاصل کر چکے تھے۔
بھائی، اگر تم مرغا رکھو تو اُسےقابو میں رکھو۔ خود بھی قابو میں رہو اور جب تمھارے پاس مرغا ہو تو کسی کی دال پر آنکھ نہ رکھو، اپنا مرغا کھاؤ۔