عالمی سطح پر دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیم داعش نے عُمان کے دارالحکومت مسقط میں وادی کبیر کے علاقے میں واقع امام بارگاہ علی بن ابو طالب پر حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے جس میں چار پاکستانیوں کی موت ہوئی ہے۔
اسی حملے میں 30 پاکستانی شہری زخمی بھی ہوئے تھے اور پاکستانی دفتر خارجہ نے ایک بیان میں اسے ’بزدلانہ دہشت گرد حملہ‘ قرار دیتے ہوئے اس واقعے کی شدید مذمت کی تھی۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جان سے جانے والوں میں چار پاکستانی، ایک انڈین، ایک مقامی شخص اور تین حملہ آور شامل تھے۔
عُمان کی رائل پولیس نے تاحال حملے کی وجہ یا گرفتاریوں کے بارے میں تفصیل فراہم نہیں کی ہے۔
دفتر خارجہ کے مطابق پاکستانی سفارت خانے کا عملہ اپنے شہریوں کی لاشوں کی شناخت اور ان کی وطن واپسی کے لیے مقامی حکام سے رابطے میں ہے۔
پاکستان نے عُمانی حکام کو محرم کے مہینے میں اس ’گھناؤنے جرم‘ کی تحقیقات اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ہر ممکن مدد کی پیشکش کی ہے۔
داعش کے مطابق اس کے تین جنگجوؤں نے حملے میں حصہ لیا تھا جس کا ہدف وہ شیعہ تھے جو عاشورہ کے موقعے پر اپنی سالانہ عزاداری میں مصروف تھے۔
داعش کے پروپیگنڈہ چینل عماق نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر کہا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں نے عُمانی فورسز سے جھڑپ سے قبل مشین گنوں کے ذریعے شیعاؤں پر فائرنگ کی تھی۔
واقعے میں زخمی ہونے والوں کے اہل خانہ اور عزیز و اقارب کی آگاہی اور مدد کے لیے عُمان میں پاکستانی سفیر عمران علی نے ہیلپ لائن قائم کر کے نمبرز شیئر کیے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے عُمان میں تعینات پاکستانی سفیر عمران علی نے بتایا کہ شیعاؤں کی مسجد میں اکثر جنوبی ایشیائی باشندے عبادت کے لیے جایا کرتے تھے۔ عُمان میں چار لاکھ پاکستانی شہری مقیم ہیں۔
’دہشت گردانہ حملہ‘
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے منگل کو بیان دیا تھا کہ وہ ’دہشت گردانہ حملے سے بہت غمزدہ ہیں‘۔
ایکس پر اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا: ’پاکستان سلطنت عمان کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے اور تحقیقات میں مکمل تعاون کی پیشکش کرتا ہے۔‘
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے فائرنگ کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’تفرقہ وارانہ‘ فعل قرار دیا۔
پاکستانی سفیر نے کہا کہ حملہ مسجد سے متصل ایک عمارت سے گولی چلنے سے شروع ہوا جب سینکڑوں لوگ نماز کے لیے جمع تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران علی نے اے ایف پی کو بتایا کہ نمازیوں کو عسکریت پسندوں نے ’یرغمال‘ بنا رکھا تھا جنہیں بعد میں عمانی افواج نے آزاد کرا دیا۔
انہوں نے کہا کہ مجرموں یا ان کے ممکنہ مقاصد کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہر کوئی اس بارے میں خاموشی اختیار کر رہا ہے‘ اور اس حملے نے ’مشکل صورتحال‘ پیدا کی ہے۔
اس سے قبل منگل کو پاکستانی سفیر نے ہسپتالوں کا دورہ کیا تھا جہاں زخمیوں کا علاج کیا جا رہا تھا۔
مسقط میں امریکی سفارت خانے نے فائرنگ کے بعد سکیورٹی الرٹ جاری کیا تھا اور منگل کے لیے تمام ویزا اپائنٹمنٹس منسوخ کر دیے تھے۔
عُمان میں امریکی سفارتخانے نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’امریکی شہریوں کو چوکنا رہنا چاہیے، مقامی خبروں پر نظر رکھنی چاہیے اور مقامی حکام کی ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔‘
تحقیقات جاری
عُمان کی رائل پولیس کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد ’صورتحال سے نمٹنے کے لیے تمام ضروری حفاظتی اقدامات اور طریقہ کار اختیار کیے گئے ہیں۔‘
پولیس نے ایکس پر مزید کہا کہ ’حکام شواہد اکٹھے کرنے اور واقعے کے اردگرد کے حالات سے پردہ اٹھانے کے لیے تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق عمان کی آبادی 40 لاکھ سے زیادہ ہے، جن میں سے 40 فیصد سے زیادہ غیر ملکی کارکن ہیں، جن میں سے زیادہ تر جنوبی ایشیا سے ہیں۔