بنگلہ دیش: پرتشدد مظاہروں میں شدت، 75 اموات

ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمیشن نے اپنے شہریوں کو احتجاج والے علاقوں سے دور رہنے کی ہدایت کی ہے جبکہ پرتشدد واقعات میں اموات کی تعداد 39 ہو گئی ہے۔

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں کی بھرتی کے قوانین میں اصلاحات کے لیے مظاہروں  میں شدت آئی ہے اور مظاہرین نے ملک کے کئی حصوں میں سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی جبکہ اموات کی تعداد جمعے کو 75 تک پہنچ گئی۔

پرتشدد مظاہروں میں شدت کے بعد بنگلہ دیش میں پاکستان کے ہائی کمشن نے جمعرات کو ایک بیان میں پاکستانیوں کو اپنی نقل و حرکت میں نہ صرف احتیاط برتنے کہا گیا بلکہ انہیں مشورہ دیا کہ وہ ان علاقوں سے دور رہیں جہاں احتجاج ہو رہا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈھاکہ میدیکل کالج میں 28 لاشوں کی تصدیق کی گئی جبکہ رواں ہفتے 45 اموات رپورٹ ہوئیں۔ دوسری طرف نجی نشریاتی ادارے انڈپینڈنٹ ٹیلی ویژن نے رپورٹ کیا کہ بنگلہ دیش میں ایک دن کے دوران ملک بھر میں پرتشدد جھڑپوں میں کم از کم 104 پولیس افسران اور 30 ​​صحافی زخمی ہوئے۔

نیٹ ورک نے کہا کہ جمعرات کو پولیس اور طلبا مظاہرین کے درمیان تصادم کے دوران 702 افراد زخمی ہوئے اور ملک بھر کے 64 میں سے 26 اضلاع میں جھڑپیں ہوئیں۔

اے ایف پی کے مطابق ملک میں انٹرنیٹ سروس کو بھی بڑی حد تک محدود کر دیا گیا، جسے ایک مانیٹر نے ’تقریباً بلیک آؤٹ‘ قرار دیا۔

ڈھاکا پولیس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مظاہرین نے ملک بھر میں کئی سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی۔

 

جمعرات کی رات ملک بھر میں انٹرنیٹ بند ہونے کے بعد جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’شرپسندوں نے پہلے ہی سرکاری نشریاتی ادارے بی ٹی وی اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی کے دفاتر اور ’مختلف‘ پولیس اور سرکاری عمارتوں کو نذر آتش کیا، توڑ پھوڑ کی اور تباہ کن سرگرمیاں کیں۔‘.

احتجاج کرنے والے طالب علموں نے جمعرات کو ملک کے سرکاری نشریاتی ادارے کو آگ لگا دی تھی۔ 

سرکاری ملازمتوں کی بھرتی کے قوانین میں اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے سینکڑوں مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔ پولیس اہلکاروں نے مظاہرین پرربڑ کی گولیاں چلائیں۔

ھمعرات کو دارالحکومت ڈھاکہ میں مشتعل ہجوم نے جھڑپوں کے دوران پیچھے ہٹنے والے پولیس اہلکاروں کا بی ٹی وی کے ہیڈ کوارٹر تک پیچھا کیا اور پھر نیٹ ورک کی استقبالیہ عمارت اور باہر کھڑی درجنوں گاڑیوں کو آگ لگا دی۔

نشریاتی ادارے نے ایک فیس بک پوسٹ میں بتایا کہ آگ پھیلنے کے دوران ’بہت سے افراد‘ اندر پھنس گئے تھے۔ تاہم بعد میں سٹیشن کے ایک اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ انہوں نے پھنسے افراد کو عمارت سے بحفاظت نکال لیا۔

انہوں نے بتایا کہ آگ بدستور لگی ہوئی ہے اور ہماری نشریات فی الحال بند کر دی گئی ہیں۔

وزیر اعظم حسینہ واجد کی حکومت نے تعلیمی اداروں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کا حکم دیا ہے اور پولیس نے ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو قابو میں لانے کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔

وزیر اعظم نے بدھ کی رات کو ٹی وی پر آ کر مظاہرین کی اموات کی مذمت کرتے ہوئے عزم ظاہر کیا تھا کہ ذمہ داروں کو ان کی سیاسی وابستگی سے قطع نظر سزا دی جائے گی۔

لیکن پرامن رہنے کی ان کی اپیل کے باوجود سڑکوں پر تشدد میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ پولیس نے ایک بار پھر ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کے ذریعے مظاہرین پر قابو پانے کی کوشش کی ہے۔

مظاہرین میں شامل 18 سالہ بیدیشا رم جھم نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہمارا پہلا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم ہم سے معافی مانگیں۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے مارے گئے بھائیوں کے لیے انصاف کو یقینی بنایا جانا چاہیے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کی جانب سے جمع کیے گئے ہسپتالوں کے اعداد و شمار کے مطابق جمعرات کو کم از کم 25 افراد مارے گئے جبکہ اس ہفتے کے اوائل میں سات افراد جان سے گئے تھے۔

ہسپتال سے ملنے والے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کم از کم دو تہائی اموات کی وجہ پولیس کے ہتھیار تھے۔

دارالحکومت ڈھاکہ کے اترا کریسنٹ اسپتال کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے ہسپتال میں سات لوگوں کی اموات ہوئی ہیں، ان میں سے دو کو ربڑ کی گولیاں لگیں جبکہ پانچ کو گولیاں لگیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے دوران زخمی ہونے والے تقریباً ایک ہزار افراد کا ہسپتال میں علاج کیا گیا ہے۔

آن لائن خبر رساں ادارے ڈھاکہ ٹائمز کے دیدار ملکن نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کے ایک رپورٹر مہدی حسن ڈھاکہ میں ہونے والی جھڑپوں کی کوریج کے دوران مارے گئے۔

موبائل انٹرنیٹ بند

بنگلہ دیش میں حکام نے مظاہروں پر قابو پانے کے لیے موبائل انٹرنیٹ سروسز بند کر دی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جنوبی بندرگاہی شہر چٹاگانگ میں پتھراؤ کرنے والے طلبا کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا جبکہ ملک کے بیشتر علاقوں میں موبائل سروس معطل ہے۔

جونیئر انفارمیشن ٹکنالوجی کے وزیر زنید احمد پلک نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’سوشل میڈیا پر مختلف افواہوں اور غیر مستحکم صورت حال کی وجہ سے موبائل انٹرنیٹ کو عارضی طور پر معطل کردیا گیا ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ حالات معمول پر آنے کے بعد سروسز بحال کردی جائیں گی۔

بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی جانب سے جنوری میں ہونے والے انتخابات میں مسلسل چوتھی بار کامیابی حاصل کرنے کے بعد یہ مظاہرے وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے لیے پہلا بڑا چیلنج ہیں۔

نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور 17 کروڑ کی آبادی میں سے تقریبا تین کروڑ 20 لاکھ افراد ملازمت یا تعلیم سے محروم ہیں، جس کے باعث غصے کا شکار طالب علم ’مجاہدین آزادی‘ کے خاندانوں کے لیے 30 فیصد ریزرویشن کے کوٹہ کو ختم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

مظاہرین کی جانب سے اہم شاہراہوں کو بند کرنے کی وجہ سے کئی مقامات پر وقفے وقفے سے جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جبکہ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ڈھاکہ میں کئی مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں جیسا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور امریکہ نے بنگلہ دیش پر زور دیا ہے کہ وہ پرامن مظاہرین کو تشدد سے محفوظ رکھے۔

اے ایف پی کے مطابق انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ رواں ہفتے ہونے والی جھڑپوں کے ویڈیو شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنگلہ دیشی سکیورٹی فورسز نے غیر قانونی طاقت کا استعمال کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا