بنگلہ دیش میں احتجاج، پاکستانی طلبہ ہاسٹل تک محدود رہیں: ہائی کمیشن

بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہروں میں چھ افراد کی اموات اور بدھ سے تعلیمی اداروں کی بندش کے بعد ڈھاکہ میں پاکستانی ہائی کمیشن نے پاکستانی طلبہ کو احتجاج سے دور رہنے اور اپنے ہاسٹلز کے کمروں تک محدود رہنے کی تاکید کی ہے۔

بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف جاری مظاہروں کے دوران چھ افراد کی اموات ہوئی ہے جبکہ بدھ سے تعلیمی اداروں کی بندش کے پیش نظر ڈھاکہ میں پاکستان کے ہائی کمیشن نے پاکستانی طلبہ کو احتجاج سے دور رہنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنے ہاسٹل کے کمروں تک محدود رہیں۔

پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں بتایا گیا ہے کہ آج صبح نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے ڈھاکہ میں پاکستانی ہائی کمشنر سید معروف سے بات کی، جنہوں نے سکیورٹی کی صورت حال اور بنگلہ دیش میں پاکستانیوں کی خیریت کو یقینی بنانے کے لیے ہائی کمیشن کی جانب سے کیے گئے اقدامات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ سفارت خانے نے مصیبت میں مبتلا افراد کی سہولت کے لیے ایک ہیلپ لائن کھولی ہے۔

بیان کے مطابق: ’نائب وزیراعظم نے پاکستان کے ہائی کمشنر کو بنگلہ دیش میں مقیم پاکستانیوں بالخصوص ڈھاکہ کے کیمپس میں مقیم طلبہ کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے انہیں مشورہ دیا کہ وہ پاکستانی طلبہ کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے مقامی حکام کے ساتھ قریبی رابطے میں رہیں۔‘

اس سے قبل سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خلاف طالب علموں کے احتجاج کے دوران کم از کم چھ افراد کی اموات اور متعدد کے زخمی ہونے کے بعد بنگلہ دیش نے اعلان کیا تھا کہ وہ بدھ سے تمام سرکاری اور نجی یونیورسٹیوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دے گا۔

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں کے کوٹے کے خلاف پر کئی ہفتوں سے مظاہرے جاری ہیں، جن میں 1971 کی جنگ میں پاکستان کے خلاف لڑنے والے افراد کے اہل خانہ کے لیے 30 فیصد کوٹہ بھی شامل ہے۔

بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے عدالتی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے مظاہرین کے مطالبات ماننے سے انکار کر دیا اور انہیں ’رضاکار‘ یا ’پاکستانی ایجنٹ‘ قرار دیا تھا۔

حسینہ واجد نے وزیراعظم ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’جنگ آزادی‘ اور ’آزادی کے لیے لڑنے والوں‘ کے خلاف اتنی ناراضگی کیوں ہے؟ اگر سرکاری ملازمتوں میں 1971 میں ’آزادی کے لیے لڑنے والوں‘ کے پوتے پوتیوں کو کوٹہ نہ دیا جائے تو کیا ان رضاکاروں کے پوتے پوتیوں کو دیا جائے جنہوں نے پاکستان کا ساتھ دیا تھا؟‘

اس بیان کے چند گھنٹوں بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں احتجاج شروع ہوا جو ملک کے دیگر بڑے تعلیمی اداروں میں بھی پھیل گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ احتجاج اس وقت پرتشدد شکل اختیار کر گیا جب ملک بھر میں ہزاروں کی تعداد میں کوٹہ مخالف مظاہرین کی حکمران جماعت عوامی لیگ کے طلبہ ونگ کے ارکان کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس استعمال کی۔

پولیس نے بتایا کہ منگل کو ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم تین طالب علموں سمیت چھ افراد جان سے چلے گئے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا: ’ہم فوری طور پر بنگلہ دیش کی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر تمام پرامن مظاہرین کی حفاظت اور تمام زخمیوں کے مناسب علاج کی ضمانت دے۔‘

حکام نے امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے ملک بھر میں یونیورسٹی کیمپسوں میں نیم فوجی فورس بارڈر گارڈ بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ فسادات کنٹرول کرنے والی پولیس کو تعینات کیا ہے۔

یونیورسٹی گرانٹس کمیشن نے منگل کو رات گئے تمام یونیورسٹیوں کو بند کرنے کا حکم دیا اور طلبہ کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر فوری طور پر احاطے خالی کرنے کی ہدایت دی۔ ہائی سکول، کالج اور دیگر تعلیمی ادارے بھی بند  کر دیئے گئے۔

کوٹہ مخالف مظاہروں کی کوآرڈینیٹر ناہید اسلام نے کہا کہ طلبہ اپنی جانیں گنوانے والوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے بدھ کو تابوت لے کر جلوس نکالیں گے۔

ڈھاکہ یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’بہت سے لوگ سٹوڈنٹ لیگ (حکمراں جماعت کے طلبہ ونگ) کے کارکنوں کے حملوں کی وجہ سے ڈر کے باعث ہاسٹل چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

’پھر بھی، بہت سے طالب علم باقی ہیں، خاص طور پر مردوں کے ہاسٹل میں۔ ہم میں سے جو لوگ اس وقت ہاسٹل میں رہ رہے ہیں، وہ آرام سے نہیں رہ رہے۔‘

دوسری جانب پولیس نے منگل کو نصف شب کے قریب ڈھاکہ میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے ہیڈ کوارٹر پر چھاپہ مارا اور اس کے طلبہ ونگ کے ایک سابق رہنما سمیت سات کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔

پولیس کی ڈیکٹیکٹو برانچ کے سربراہ ہارون الرشید نے کہا کہ بی این پی دفتر کے قریب ایک بس کو نذر آتش کرنے کے بعد چھاپے کے دوران انہوں نے 100 کروڈ بم اور پیٹرول کی کئی بوتلیں برآمد کیں۔

بی این پی کے سینیئر جوائنٹ سکریٹری روح الکبیر رضوی نے چھاپے کی مذمت کی اور کہا کہ حکومت نے کوٹہ مخالف مظاہروں کو بدنام کرنے کے لیے برآمد شدہ اشیا خود رکھی تھیں۔

جنوری میں بی این پی کی جانب سے بائیکاٹ کیے جانے والے انتخابات میں مسلسل چوتھی بار جیتنے کے بعد یہ مظاہرے حسینہ واجد کی حکومت کے لیے پہلا اہم چیلنج ہیں۔

ماہرین اس بے چینی کی وجہ نجی شعبے میں ملازمتوں کے جمود کو قرار دیتے ہیں، جس کی وجہ سے سرکاری ملازمتوں، جن میں باقاعدگی سے اجرتوں میں اضافہ اور دیگر مراعات ملتی ہیں، کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔

اس وقت بنگلہ دیش میں 56 فیصد سرکاری ملازمتیں مختلف کوٹوں کے تحت مخصوص ہیں، جن میں 10 فیصد خواتین کے لیے، 10 فیصد پسماندہ اضلاع کے لوگوں کے لیے، پانچ فیصد مقامی برادریوں کے لیے اور ایک فیصد معذور افراد کے لیے مختص ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس