امریکی محکمہ خارجہ نے 2018 سے 2021 تک بنگلہ دیش کے آرمی چیف کے طور پر خدمات انجام دینے والے عزیز احمد پر مبینہ بدعنوانی کے الزام میں سفری پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس اعلان میں عزیز پر غیر قانونی سرگرمیوں کے لیے اپنے بھائی کو انصاف سے بچانے میں مدد کرنے کا الزام لگایا گیا تھا اور کہا گیا کہ انہوں نے نامناسب فوجی ٹھیکے اور رشوت قبول کی تھی۔
(یہ الزامات اور کھچ مزید 2021 میں الجزیرہ کی ایک دستاویزی فلم میں تفصیل سے بیان کیے گئے تھے)
امریکہ نے 2021 میں پہلی بار بنگلہ دیش پر پابندیاں عائد کیں، جس کی وجہ ایک نیم فوجی تنظیم تھی جس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام تھا۔ گذشتہ سال کئی نامعلوم بنگلہ دیشی شہریوں کو بھی 'جمہوری انتخابی عمل کو کمزور کرنے' کی وجہ سے ویزا پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اس کے باوجود تازہ اعلان نے ڈھاکہ کو حیران کر دیا۔ امریکہ نے بنگلہ دیش میں جنوری میں ہونے والے انتخابات کے بعد کے مہینوں میں اس ملک کے بارے میں نرم عوامی موقف اختیار کیا تھا، تاہم امریکی محکمہ خارجہ نے ان انتخابات کو آزاد یا منصفانہ قرار نہیں دیا تھا۔
گذشتہ ہفتے ڈھاکہ کے دورے کے دوران جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے لیے امریکہ کے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو نے تعلقات کو آگے بڑھانے کی اہمیت پر بات کی تھی۔
امریکی تھنک ٹینک فارن پالیسی کے مطابق جنرل عزیز پر پابندیاں اس بات کی یاد دہانی کراتی ہیں کہ انسانی حقوق اور جمہوریت کا فروغ امریکہ اور بنگلہ دیش کے تعلقات کا بنیادی جز رہے ہیں۔ واشنگٹن کے خوشگوار تعاون کو یقینی بنانے کی خواہش کے پیش نظر، یہ فیصلہ دراصل ایک محفوظ سٹہ ہے: یہ نسبتا ہلکی سزا ہے جو معاشی اثاثوں کے پیچھے نہیں جاتی اور یہ ایک ریٹائرڈ افسر کو نشانہ بناتی ہے۔
بنگلہ دیش کی حکومت اب تک جنرل عزیز احمد کے دفاع میں نہیں آئی ہے۔
البتہ اسے اپنے ملک کے لیے بدنامی قرار دیتے ہوئے، سول سوسائٹی کے گروپوں نے گذشت روز حکام سے مطالبہ کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل عزیز احمد اور ان کے خاندان کے خلاف واشنگٹن کی جانب سے ’بدعنوانی‘ کے الزام میں بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد تحقیقات کی جائیں۔
عزیز اور ان کا قریبی خاندان اس فیصلے کے نتیجے میں امریکہ میں داخل نہیں ہوسکتا ہے۔
عزیز پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے بھائی کو پراسیکیوشن سے بچنے میں مدد کی، سرکاری تقرریوں کے بدلے میں رشوت لی اور اپنے بھائی کے ساتھ مل کر فوجی ٹھیکوں پر اثر انداز ہوئے۔ .
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بنگلہ دیش کے افتخار الزمان کے لیے بلیک لسٹ میں ڈالنا کوئی حیران کن بات نہیں تھی کیونکہ ’امریکہ نے واضح کیے رکھا ہے‘ کہ وہ بدعنوانی کو برداشت نہیں کرے گا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بنگلہ دیش کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے بینر نیوز کو بتایا، ’یہ ملک اور اس کے لوگوں کے لیے واقعی شرم کی بات ہے کہ یہ گواہی دینا کہ فوج کے سابق سربراہ بدعنوانی میں ملوث ہیں اور انہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔‘
افتخار الزمان نے کہا: ’اب بنگلہ دیش کو ثابت کرنا ہے کہ یہاں بھی قانون کی حکمرانی ہے۔ لہٰذا، کرپشن کے ان الزامات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کی جانی چاہیے۔‘
بدیع العالم مجمدار نے، جو ڈھاکہ کی سول سوسائٹی کا حصہ ہیں، کہا کہ بنگلہ دیشی حکام، خاص طور پر انسداد بدعنوانی کمیشن کو عزیز اور بدعنوانی میں ملوث دیگر افراد کے خلاف ’فوری مثالی کارروائی‘ کرنی چاہیے۔
سوسائٹی کے رہنما شوشاشنر جونو ناگورک نے بینر نیوز کو بتایا کہ ’یہ ایک ملک اور اس کے لوگوں کے لیے بہت بڑی رسوائی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق عزیز اور اس کے تین بھائی طویل سیاسی سرپرستی اور فوجی افسران کو حاصل لامحدود فوائد کی وجہ سے دنیا کے سب سے بڑے مافیا گروپس کی طرح ہوگئے ہیں۔
صحافیوں نے گذشتہ روز وزیر خارجہ حسن محمود سے پوچھا گیا کہ کیا بنگلہ دیش کی حکومت امریکہ کی جانب سے انہیں بلیک لسٹ کرنے کے جواب میں عزیز کے خلاف کسی کارروائی کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ان کا جواب تھا: ’یہ ایک فوجی مسئلہ ہے۔ میں ابھی کچھ نہیں کہنا چاہتا۔‘
’ہم امریکہ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور بین الاقوامی سطح پر انسداد بدعنوانی، انسداد دہشت گردی اور دیگر شعبوں میں مل کر کام کر رہے ہیں۔‘
وزیر نے کہا کہ امریکی حکومت نے پابندی کا اعلان کرنے سے پہلے واشنگٹن میں بنگلہ دیش کے سفارت خانے کو آگاہ کیا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اعلان میں کہا گیا ہے کہ عزیز کے اقدامات سے بنگلہ دیش کے جمہوری اداروں کو نقصان پہنچا ہے۔
ترجمان میتھیو ملر سے منسوب بیان میں کہا گیا کہ عزیز احمد نے عوامی عمل میں مداخلت کرتے ہوئے اپنے بھائی کی بنگلہ دیش میں مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے احتساب سے بچنے میں مدد کی صورت میں بدعنوانی کی ہے۔‘
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ’عزیز نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر فوجی ٹھیکوں کے نامناسب اجرا کو یقینی بنانے کے لیے بھی کوشش کی اور اپنے ذاتی فائدے کے لیے سرکاری تقرریوں کے عوض رشوت قبول کی۔‘
’حیران‘
بنگلہ دیش کے سابق آرمی چیف نے ردعمل میں کہا ہے کہ ان کے خلاف تمام الزامات جھوٹے ہیں اور وہ امریکی اعلان کے بارے میں ’سن کر حیران‘ ہوئے۔
بنگلہ دیش کے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل جمنا ٹی وی کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا، ’[ایک] دوست نے صبح مجھے [محکمہ خارجہ کے بیان کی] کاپی بھیجی۔‘
عزیز نے کہا کہ قطر میں قائم میڈیا گروپ الجزیرہ کی 2021 میں نشر ہونے والی ایک دستاویزی فلم میں ان کے خلاف وہی دعوے کیے گئے تھے جو امریکہ نے کیے تھے۔
انٹرویو کے دوران عزیز سے ان کے تین بھائیوں سے جڑے الزامات کے بارے میں پوچھا گیا جنہیں 2004 میں قتل کے ایک مقدمے میں سزا سنائی گئی تھی۔ تین میں سے دو گرفتاری سے بچ گئے اور ابھی تک فرار ہیں جب کہ تیسرے جیل میں تھے جہاں ایک دہائی سے زیادہ رہنے کے بعد انہیں 2018 میں صدارتی معافی مل گئی۔
سابق آرمی چیف نے کہا کہ امریکی الزام کہ ایک بھائی کو بچانے میں مدد کا الزام غلط ہے۔
’میرا وہ بھائی کافی عرصے سے بیرون ملک مقیم ہے۔ وہ درست پاسپورٹ لے کر بیرون ملک چلا گیا۔‘
’ایک اور [شکایت] یہ ہے کہ میں نے اپنے بھائی کو ملٹری کنٹریکٹ دے کر اور رشوت لے کر بدعنوانی کی۔ اگر کوئی یہ ثابت کر سکتا ہے کہ میں نے بی جی بی [بارڈر گارڈ بنگلہ دیش] کے سربراہ کی حیثیت سے چار سالہ اور آرمی چیف کی حیثیت سے تین سال کی خدمات کے دوران اپنے کسی بھائی یا کسی رشتہ دار کو کوئی کام دیا ہے تو میں ہر قسم کا نتیجہ بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔‘
انٹرویو لینے والے نے عزیز سے سوال کیا کہ اگر ثبوت نہیں تھے تو امریکہ کارروائی کیسے کر سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر تبصرہ نہیں کریں گے کیونکہ میرے پاس کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔‘
’تمام وزیراعظم کے بندے‘
الجزیرہ کی دستاویزی فلم کے مطابق ان کا ایک بھائی حارث احمد 2015 میں بوداپیسٹ چلا گیا تھا اور تب سے وہ وہاں کاروبار کر رہا ہے۔ ایک اور بھائی انیس احمد مبینہ طور پر ملائیشیا میں رہتا ہے۔ کچھ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ معافی پانے والے تیسرے بھائی طفیل احمد جوزف نے بھی بنگلہ دیش چھوڑ دیا ہے۔
2021 میں بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے ملک کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے الجزیرہ کی دستاویزی فلم ’آل دی پرائم منسٹرز مین‘ کو ہٹانے کا حکم دیا تھا۔ اس وقت الجزیرہ کے تفتیشی یونٹ نے اس دستاویزی فلم کا دفاع کیا تھا۔
الجزیرہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ اس بات کو بے نقاب کرتا ہے کہ کس طرح بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ نے قتل کے مجرم دو مفرور بھائیوں کو انصاف سے بچنے میں مدد کی۔‘
’ایک بھائی، حارث احمد، فخر کرتا ہے کہ وہ اپنے طاقتور خاندانی روابط کی بدولت اپنے حریفوں کو اغوا کرنے اور رشوت سے دولت کمانے کے لیے پولیس اور نیم فوجی یونٹوں کا استعمال کر سکتا ہے۔‘
الجزیرہ نے کہا کہ اس نے وزیراعظم شیخ حسینہ، عزیز کے بھائیوں، سکیورٹی فورسز کے سینیئر ارکان اور وزرا سمیت دستاویزی فلم میں جن کا ذکر آیا ہر ایک سے رابطہ کیا تھا لیکن ان میں سے کسی نے بھی تفصیلی سوالات کا جواب نہیں دیا۔
جنرل عزیز احمد (درمیان میں) کو 28 اکتوبر، 2019 کو بنگلہ دیش کے شہر راج شاہی کے ضلع ناٹور میں انجینئر سینٹر اینڈ سکول آف ملٹری انجینئرنگ میں کور آف انجینئرز کے 'ساتویں کرنل کمانڈنٹ' کے طور پر ایک بیج دیا جا رہا ہے (بنگلہ دیش آرمی)