عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے دنیا بھر میں کرونا (کورونا) وائرس کے باعث بڑھتے ہوئے مثبت کیسز اور اموات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خطرے سے دوچار افراد کو ویکسین جاری رکھنے کا مشورہ دیا ہے، تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حوالے سے پاکستان میں کیا صورت حال ہے؟
کرونا کی شدت میں حالیہ اضافے کی زد میں امریکہ صدر جو بائیڈن بھی آ گئے ہیں اور کووڈ 19 کی تشخیص کے بعد انہوں نے اپنی سرگرمیاں محدود کر دی ہیں اور قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔
پاکستان کے قومی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں کرونا وائرس کی صورت حال کنٹرول میں ہے اور ملک میں کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے کیے جانے والی ٹیسٹوں کے بعد مثبت کیسز کا تعداد ایک فیصد سے کم ہے۔
اے ایف پی کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہانوم گیبریسس نے جنیوا میں پریس کانفرنس کے دوران کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کی کوریج میں کمی پر دنیا کو خبردار کرتے ہوئے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ وائرس کی نگرانی اور تسلسل کو برقرار رکھیں، اور سستی اور قابل اعتماد ٹیسٹ، علاج اور ویکسین تک رسائی کو یقینی بنائیں۔
ٹیڈروس کے مطابق: ’اس وقت کرونا وائرس کے باعث دنیا بھر میں ہر ہفتے 1700 اموات ہو رہی ہیں، ان میں اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ شعبہ صحت میں کام کرنے والا عملہ اور 60 سال سے زائد عمر کے افراد، دو ایسے گروپ جن کو وائرس کا سب سے زیادہ خطرہ ہے، ان دونوں گروپوں میں ویکسین لگانے کا رجحان کم ہو رہا ہے۔‘
ٹیڈروس نے کہا کہ عالمی ادارہ صحت سفارش کرتا ہے کہ سب سے زیادہ خطرے والے گروپ کے لوگ ویکسین کی آخری ڈوز کے ایک سال بعد لازمی ویکسین کرائیں۔عالمی وبا کا باعث بننے والا کووڈ 19 وائرس پہلی بار دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں دریافت ہوا تھا۔
2020 کے آغاز میں دنیا بھر میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن لگا دیا گیا تھا۔ عالمی لاک ڈاؤن کے دوران سفر کرنے اور گھر سے باہر نکلنے پر پابندی رہی۔ دنیا بھر میں یہ لاک ڈاؤن کئی مہینے تک جاری رہا۔
کچھ عرصے بعد کرونا وائرس سے بچاؤ کی ویکسین کی دریافت اور دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر ویکسین لگانے کے بعد عالمی ادارہ صحت نے مئی 2023 میں کرونا کو ایک بین الاقوامی عوامی صحت کی ایمرجنسی کے طور پر ختم قرار دیا۔
عالمی ادارہ صحت کی اس نئی وارننگ کے بعد جہاں مختلف ممالک میں کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے دوبارہ احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے، وہاں پاکستان کے قومی اداری صحت کے مطابق ’تاحال صورت حال کنٹرول‘ میں ہے۔
پاکستان کے قومی ادارہ صحت کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے سربراہ ڈاکٹر ممتاز علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’جس طرح کرونا وبا کے دوران پاکستان میں کرونا کیسز اور اموات کے متعلق روزانہ رپورٹ بنائی جاتی تھیں، اب اس طرح کی صورت حال نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
'پاکستان میں کرونا وائرس کے مثبت کیسز کی انتہائی کم تعداد کے باعث اب ہم وائرس کی اس طرح نگرانی نہیں کررہے ہیں، تاحال پاکستان میں کرونا وائرس کے کیسز میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔
’اب تو ٹیسٹ بھی ماضی طرح نہیں کیے جا رہے ہیں۔ ان مریضوں کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں جن کی سرجری ہونی ہے۔ لیبارٹری میں کیے جانے والے ٹیسٹوں میں مثبت آنے والے کیسز کی تعداد ایک فیصد سے کم ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ 'اب کرونا اتنا خطرناک وائرس نہیں سمجھا جاتا اور زیادہ تر آبادی کو ویکسین لگ چکی ہے۔‘
اس کے علاوہ جن لوگوں کو کرونا ہو چکا ہے، ان میں بھی دوبارہ کرونا میں مبتلا ہونے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
دوسری جانب کچھ ممالک میں کرونا وائرس سے بچاؤ کی حفاظتی تدابیر کا آغاز کر دیا ہے۔
اے ایف پی کے مطابق فرانس نے کرونا وائرس کے دوبارہ پھیلاؤ کے پیش نظر صحت کے خطرات کو کم کرنے کے لیے مردوں کی سائیکل ریس ’ٹور ڈی فرانس‘ میں حفاظتی اقدامات کو لازمی قرار دیا ہے۔
ریس کا انتظام سنبھالنے والے تنظیم اماؤری سپورٹ آرگنائزیشن نے ریس میں شرکت کرنے والے سائیکل سواروں، ریس کے منتظمین، مہمانوں اور کوریج کرنے والے صحافیوں کے لیے ماسک پہننا لازمی قرار دیا ہے۔
برطانیہ کے ٹام پیڈکاک اور سپین کے آیوسو سمیت کئی رائیڈرز پہلے ہی کرونا وائرس کے مثبت ٹیسٹ کے بعد ریس سے باہر ہو چکے ہیں۔
پوگاچار نے ریس کے آغاز سے پہلے کہا کہ وہ جون کے وسط میں وائرس سے متاثر ہوئے تھے جبکہ 2018 کے فاتح جیرینٹ ٹامس ہلکی علامات کے باوجود ٹور جاری رکھے ہوئے ہیں۔
چند رائیڈرز جیسے کہ ریمکو ایوینیپول، جو مجموعی طور پر تیسرے نمبر پر ہیں، نے پچھلے چند دنوں سے دوبارہ ماسک پہننا شروع کر دیا ہے۔
برطانیہ کووڈ 19 کے ردعمل میں عوامی تحقیقات پر اپنی پہلی رپورٹ جمعرات کو جاری کرے گا۔ رپورٹ میں اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کی گئی کی گئی ہے کہ ملک اس قسم کی وبا کے لیے کتنا تیار تھا۔
برطانیہ میں دسمبر 2023 تک کووڈ سے دو لاکھ 30 ہزار اموات رکارڈ کی گئیں، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق سابق وزیر اعظم بورس جانسن نے مئی 2021 میں اس تحقیقات کا حکم دیا تھا، اور اگلے سال اسے سابق جج ہیدر ہیلیٹ کی سربراہی میں باقاعدہ طور پر شروع کیا گیا تھا۔
ابتدائی رپورٹوں میں بتایا گیا کہ حکومت پوری طرح تیار نہیں تھی اور اس نے کمزور افراد کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کا اندازہ نہیں لگایا تھا۔
یہ نتائج حکومت کی خرچ کی نگرانی کرنے والی تنظیم کی 2021 کی رپورٹ کی عکاسی کرتے ہیں، جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ حکومت وبا جیسی بحران کے لیے تیار نہیں تھی، اس نے مشقوں سے سبق نہیں سیکھا تھا اور بریگزٹ کی وجہ سے توجہ ہٹ گئی تھی۔
تحقیقات کا پہلا ماڈیول صرف برطانیہ کی تیاری کا جائزہ لے چکا ہے۔ بعد کی رپورٹس میں حکومت کی بدانتظامی کے وسیع پس منظر کے خلاف وبا کے دوران حکومت اور فیصلہ سازی کے زیادہ سیاسی طور پر حساس مسائل کا جائزہ فراہم کیا جائے گا۔